دھیان بٹائے رکھناہے!

کرہ عرض کی تقسیم سرحدوں کے تعین کے ساتھ کی گئی، مورخین اور جغرافیہ سے تعلق رکھنے والے اس امر سے خوب آگاہ ہونگے کے ان سرحدوں کا تعین کن بنیادوں پر کیا گیا، یہ یقینا ایک دلچسپ معلومات ہوگی۔ ایک اندازے کے مطابق اور تھوڑی سی تاریخ کے مطالعہ اور موجودہ عالمی نظام سے یہ اندازہ لگانا تو آسان ہوجاتا ہے کہ ان سرحدوں کے پیچھے بھی اثر و رسوخ جیسی اصطلاح کارفرما رہی ہوگی۔ اس اثر و رسوخ کو جاننے کیلئے اپنے قبائلی نظام کو دیکھ لیجئے جہاں جس قبیلے کا سردار جتنا طاقتور ہوگا اور جتنے وسائل اس کے قبضے میں یا اس کے علاقے میں ہونگے وہ اپنی سرحدیں بڑھانے کے جواز بھی پیدا کرنے کا مجاز ہوگا۔ اس قبیلے کے آس پاس قبائل جن کے وسائل محدود ہونگے، چھوٹے ہونگے اور زندگیاں اجیرن ہونگی تو اپنے قبیلے کو ایسے کسی قبیلے میں یاتوخود ضم کردینگے یا پھر ان پر قبضہ کرلیا جائے گا ۔ شائد ایسی ہی کوئی حیقیقت تاریخ کی ورق گردانی سے جلوا افروز ہوسکے ۔

پہلے تو پاکستان کی تخلیق کی ایک منظم تحریک اور پھر اس تحریک کی بدولت پاکستان کا وجود میں آنا مان لیجئے در اصل اس اثر ورسوخ سے ٹکراؤ تھا ۔ جس کے لئے اللہ رب العزت نے کچھ خاص لوگوں کو چنا اور ان سے یہ کام اپنے منطقی انجام کو پہنچوایا۔ یہاں یہ واضح کرنا بھی ضروری ہے کہ اثر و رسوخ سے ٹکراؤ سے کیا مراد ہے تاج برطانیہ جہاں سورج غروب نہیں ہوتا تھا یعنی کہیں سورج غروب ہوتا اور کہیں نکلتا تو وہ سب تاج برطانیہ کے ماتحت تھے۔ ہر قسم کی طاقت سے مالامال ایشیا، افریقہ اور یورپ پرقابض تاج برطانیہ سے جس کی حمایت پرہندوستان کے سارے رہنماء مگر پھر بھی پاکستان کا وجود میں آنا عقلی طور پر سمجھ نہیں آتا، کھلی آنکھوں سے یقین کرنا مشکل ہے۔ البتہ یہ بات واضح دلیل کے طور پر ابھر کر آتی ہے کہ تاریکی میں ڈوبتی ہوئی امۃمسلمہ کی بقاء کیلئے نعرہ تکبیر کا بلند ہونا اور پاکستان کا مطلب کیا لالہ اللہ گونجنا اور حقیقت میں دنیا کی تقسیم کے نظرئیے کو دوقومی نظریے کا نام دینا قدرت کیلئے کافی تھا کہ وہ حمایت کرے اور قدرت نے بھرپور حمایت کی پاکستان وجود میں آگیا۔ یہ معجزا بھی اللہ کے مہینے رمضان المبارک میں وجود میں آیا اور وہ بھی ستائیسویں شب میں۔ کتنے جسم کٹے، کتنے جسم لٹے، کیا کچھ برباد ہوا لیکن پاکستان وجود میں آگیا، جہاں طے پایا کہ تمام مذاہب کو اپنی اپنی عبادت گاہوں میں عبادت کی آزادی دی جائے گی اور اسلام کے بنیادی اصول اس ملک ِ خداداد کا قانون ہونگے۔

انگریزوں اور ہندوؤں نے مل کر مسلمانوں پر جہاں طبعی مظالم کے پہاڑ توڑے وہیں انہوں نے ایک منظم طریقے سے تعلیم سے دوررکھنے کی ہر ممکن کوشش کی اور یہ کوشش کامیاب بھی رہی جس کے لئے انہوں نے مسلمانوں کو ہی استعمال کیا۔ تعلیم سے دور رکھنے کیلئے انہوں نے مسلمانوں کو ایسا نوازا کے ان کا ذہن تعلیم کی اہمیت کوسمجھنے سے قاصر رہا انہیں دنیا کی ساری سہولیات فراہم کرتے رہے اور اپنے لئے بھرپور طریقے سے استعمال کرتے رہے۔ اس طرح سے سر سید احمد خان کی کوششیں دم توڑتی چلی گئیں۔ ایسے ہی لوگوں کو پاکستان بننے کے بعد اختیارات سے نوازا گیا جو آسائسشوں کے عادی ہوچکے تھے اور انکی نسلیں بھی اسی ڈھب پر چلنا شروع ہوگئیں پھر وقت کی ضرورت سمجھ کر ان لوگوں نے اپنے بچوں کو بیرون ملکوں سے تعلیم بھی دلوائی تاکہ آنے والے وقت میں جہاں انہیں کاغذوں کی ضرورت پڑے تو وہ اس سے بھی مار نا کھائیں ، گنتی کے سیاستدانوں کے علاوہ پاکستان کی سیاست میں ایسے ہی اشرافیہ ملتے ہیں جو نسل در نسل اس کھیل کے کھلاڑی ہیں، یہی لوگ سیاسی جماعتیں بدلتے ہیں اور وقت پڑنے پر یہ نئی جماعتوں کو بھی تشکیل دیتے ہیں۔ یہ تو طے ہے کے ایسا ممکن نہیں کے کوئی انسان بغیر مسائل کے زندگی گزار رہا ہو، غریب آدمی کے مسائل ظاہری ہوتے ہیں اس کے لئے دو وقت کی روٹی کمانا اور اپنے اہل خانہ کو کھلانا سب سے بڑا مسئلہ سمجھا جاسکتا ہے، بھوک کے بعد ایک طویل فہرست مرتب کی جاسکتی ہے جو کسی بھی قسم کی ضرورت کے علاوہ ہو، ایسے ہی امیر آدمی کا سب سے بڑا مسئلہ جو بظاہر تو دکھائی نہیں دیتا لیکن اب سمجھ ضرور آتا ہے کہ اپنی دولت میں مزید اضافہ کیسے کیا جائے اور پھر اس کے ساتھ اس سے وابستہ مسائل کی فہرست ترتیب دی جاسکتی ہے۔ امیر اور غریب بطوں انسان دونوں ہی معاشرے کی اکائی ہیں لیکن بد قسمتی ان دونوں کے رخ مختلف سمتوں میں ہیں۔ ایک مغرب کی طرف ہے تو دوسرا مشرق کی طرف زور لگا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دونو ں ایک دوسرے کے مسائل پر توجہ دینے سے قاصر ہیں اور اپنے مسائل کو ہی حقیقی مسائل سمجھتے ہیں۔ معذرت کیساتھ ! مسائل تو مسائل ہیں نا چاہے وہ امیر کے ہیں یا غریب کے۔

مسائل تو جیسے پاکستان کی سرحدوں میں ہمارے آباءو اجداد کے داخل ہونے سے قبل ہی پھیلا دیئے گئے تھے بلکہ ہماری پاک سرزمین میں بو دئے گئے تھے اور ان کی نشوو نما پہلے دن سے ہی شروع ہوگئی تھی جس کی آبیاری جانے انجانے اپنے لہو سے بھی کی گئی۔ یہ وجہ بھی ہوسکتی ہے جو آج یہ مسائل اتنے تناوراور مضبوط درخت بن کر کھڑے ہوئے ہیں اور ان کی طاقت اور مضبوطی کا اندازہ لگائیں کے کوئی ان کی طرف دیکھنے کی بھی مجال نہیں کرتا انہیں کاٹنا تو بہت دور کی بات ہے۔ تعلیم سے دوری نے عزت نفس کا تصور بھی کہیں پوشیدہ کر دیا، ساری کی ساری توجہ معاش پر لگا دی گئی۔ پھر تعلیم کی روشنی کی طرح گھروں میں جلنے والے بلب بھی مدہم ہوتے گئے دنیا آگے بڑھتی گئی اور ہم نے پستی کا سفر شروع کردیا۔ مسائل تو جیسے روز بروز بڑھتے ہی چلے جارہے ہیں اور یہ مسائل بنیادی ہیں جن میں آج سب سے بڑا مسئلہ اشیائے خردو نوش کی دستیابی ہے خدا ناخواستہ ایسا نہیں کہ ہم قحط زدہ کہلائے جانے والے ہیں بلکہ ہمارے ملک کی اکثریت آبادی قوت ِ خرید سے محروم ہوتی جارہی ہے، یوں سمجھ لیجئے رکھے ہوئی رقم ذائل ہوتی جارہی ہے۔ مہنگائی کا دیو ہیکل جن ہر طرف دندناتا پھر رہا ہے جسے قابو میں کرنے کی کسی میں ہمت نہیں اور جنہیں اختیار دیا گیا ہے ان کی صحت پر اس جن کے دندنانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ خاکم بدہن ! ہم کہیں کسی ایسا قبیلہ تو نہیں بننے جارہے جو اپنے سے بڑے اور خوشحال قبیلے کی طرف مدد کیلئے دیکھ رہا ہو ۔ ہمارے ملک کے بڑھتے ہوئے مسائل ہمیشہ سے عوام کا دھیان اہم مسائل سے ہٹانے میں کامیاب رہے ہیں۔

نگران حکومت اس عزم کیساتھ کہ وہ صاف اور شفاف انتخابات کرائے گی، وجود میں آچکی ہے، وزیروں مشیروں نے کام شروع کردیا ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ نگران حکومت کے سینے میں دل نہیں ہوتا یہ مشینی لوگ ہوتے ہیں انہیں ٹیکنوکریٹ کہا جاتا ہے (ویسے تو منتخب حکومت کے سینے میں بھی دل نہیں ہوتا لیکن ضرورت کے مطابق استعمال کرلیتے ہیں ) اسلئے جب تک نگران حکومت رہیگی عوام کی حالت مزید خراب ہوتی جائے گی، قیمتوں میں اضافہ ہی ہوگا۔ لیکن یہ بات ہمیشہ یاد رکھنی ہے کہ پاکستان کا مطلب لا الہ اللہ ہے او ر اللہ جو اپنے بندے سے ستر ماءوں سے زیادہ محبت کرتا ہے بھلا کیسے ۲۲ کروڑ لوگوں کے گھر کو برباد ہونے دے گا، بھلا وہ کیسے اس قبیلے کو جو ایک معجزے کے طور پر ہمیں دیا گیا ہے کسی اور قبیلے میں ضم ہونے دیگا، بھلا وہ رب العزت کیسے اس رحمتوں اور نعمتوں سے لبریز زمین کو برباد ہونے کیلئے بے یارومددگار چھوڑدیگا۔ البتہ یہ ضرور ممکن ہو کہ وہ اپنے ان بندوں کی آزمائش لے رہا ہوجنہیں اب وہ پاکستان کی باگ دوڑ دینا چاہتا ہو ۔ بس اب دھیان بٹنے نہیں دینا ہے ملک کی سلامتی اور خیرخواہی کیلئے اپنی توجہ ضرور رکھنی ہے ۔ اب ہ میں بطور قوم کچھ ایسا کرنا ہے کہ دشمن کا دھیان بٹا رہے اور ہم اپنے راستے پر گامزن ہوجائیں۔ ان شاء اللہ

حصہ
mm
شیخ خالد زاہد، ملک کے مختلف اخبارات اور ویب سائٹس پر سیاسی اور معاشرتی معاملات پر قلم سے قلب تک کے عنوان سے مضامین لکھتے ہیں۔ ان کا سمجھنا ہے کہ انکا قلم معاشرے میں تحمل اور برداشت کی فضاء قائم کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے اور دوسرے لکھنے والوں سے بھی اسی بات کی توقع رکھتے ہیں کہ قلم کو نفرت مٹانے کیلئے استعمال کریں۔