گھر میری جنت

چھوٹی چھوٹی باتوں پر جھگڑے ہونا تو عام سی بات تھی مگر آج بات بڑھ گئی تھی، ناصر کو گھر آنے میں کئی دن سے دیر ہورہی تھی ۔ پوچھنے پر وہ دفتری کام اور مختلف پروجیکٹس کے متعلق بتاتا مگر شازیہ کو یقین نہ آتا ، شازیہ کے دل میں پیدا ہونے والے شکوک و شبہات اور اندیشے روز کے جھگڑے کی بنیاد بنتے، آج بھی یہی ہوا۔ شازیہ نے اپنے شک کی بنیاد پر ناصر پر بے بنیاد الزامات لگائے تو بات بڑھ گئی۔ ناصر پیر پٹختا گھر سے باہر چلا گیا تو شازیہ نے بھی بیگ میں کپڑے ڈالے ۔ بچوں کا ہاتھ پکڑا ۔ گھر کی چابی دونوں میاں بیوی کے پاس رہتی تھی لہٰذا اس نے گھر لاک کیا ۔ رکشہ میں بچوں کو لے کر میکے چلی گئی ۔ امی ابا کو رو رو کر اس نے تمام قصہ بڑھا چڑھا کر بیان کیا ۔ شازیہ کی والدہ نے شازیہ کو سمجھایا، والد نے ناصر کو فون کیا۔ ناصر نے قصوروار شازیہ کوٹھہرایا۔ انہوں نے دونوں کو سمجھانے کی کوشش کی مگر کوئی نتیجہ نہ نکلا۔

چند دن اسی طرح گزرگئے، شازیہ کے والد نے ناصر کے والد اور ناصر سے ملاقات کی ۔ناصر کی والدہ نے بھی ناصر کے ہمراہ شازیہ کو مناکر گھر لے جانے کی کوشش کی۔ مگر کوئی نتیجہ نہ نکلا۔ شازیہ نے خلع لینے کا فیصلہ کرلیا تھا۔ والدین اور بھائی بھابھی نے سخت مخالفت کی مگر شازیہ نے خلع کے لئے اپنی وکیل سہیلی کی مدد حاصل کی۔ خلع کا کیس کردیا گیا۔

ان ہی دنوں شازیہ کی خالہ برطانیہ سے پاکستان آئیں ۔اور ان کے ہی گھر قیام کیا ۔ خالہ بہت بردبار اور مصلحت پسند خاتون تھیں ۔ خاندان کے سبھی افراد ان کی بہت عزت کرتے تھے۔ انہوں نے بھی شازیہ کو سمجھانے کی کوشش کی۔ انہوں نے کہا کہ دیکھو بیٹی ! زوجین میں علیحدگی سے ابلیس خوش ہوتا ہے اور یہ خدا کے نزدیک سخت ناپسندہدہ عمل ہے۔ تم ایک کام کرو ۔ ٹھنڈے دل سے سوچو ۔ ناصر سے خود بات کرو ۔ بچوں کو ہم سنبھال لیں گے ۔ تم اکیلی جاو اور ناصر سے بات کرو شازیہ کو یہ سن کر غصہ آگیا، خالہ میں نے خلع کا کیس کردیا ہے اور آپ مجھے بات کرنے کا کہہ رہی ہیں۔ مجھے بات کرنی ہوتی تو کیس کیوں کرتی۔

خالہ نے تحمل سے شازیہ کی بات سنی اور مزید سمجھاتے ہوئے کہا کیس تو واپس بھی لیا جاسکتا ہے ۔ بچوں کا سوچو ۔ بچوں کا مستقبل خراب ہوجائے گا ۔ ناصر بہت اچھا انسان ہے، تم بھی بہت سمجھ دار ہو ۔ بس وقتی جذباتی فیصلہ ہے ۔ٹھنڈے دل سے بیٹھ کر سوچو ، کیا وجہ اتنی بڑی ہے کہ عمر بھر کے لئے ایک دوسرے سے جدا ہوجائیں ؟ بچوں کی جگہ خود کو رکھ کر سوچو ۔ دیکھو کتنے خاموش اور اداس ہیں ۔ یہ عمر تو بچوں کے کھیلنے کودنے کی ہے ۔ جس میں وہ خاموش بیٹھے سوچوں میں گم رہتے ہیں۔

شازیہ کی آنکھوں کے گوشے نم ہونے لگے وہ کمرے سے نکل گئی ۔ اپنے کمرے میں وہ خالہ کی باتوں کے متعلق سوچتی رہی ۔ بھابھی کا بچوں کے ساتھ رویہ اس کے سامنے تھا۔ جب سے شازیہ نے خلع کا کیس کیا تھا، تب سے بچوں کے کھانے پینے ، کھیلنے ہر معاملے میں بھابھی بچوں کو بلاوجہ ٹوکتی اور ڈانٹتی رہتی تھیں۔ شازیہ کے والدین اور بھائی بھی اس فیصلے سے خوش نہ تھے لہٰذا شازیہ سے کوئی بات کرنا پسند نہ کرتا تھا۔ خالہ کی باتوں میں صداقت تھی۔ حقیقت تھی۔ وہ پھر خالہ کے پاس گئی

خالہ اگر میں بات کرنے یعنی صلح کرنے چلی گئی تو وہ کیا سوچے گا۔ میری بے عزتی ہوگی ” خالہ نے جواب میں شازیہ سے ہی سوال کیا۔”جب آپ رب تعالیٰ کے ناپسندیدہ عمل کو چھوڑدو گے تو تمام معاملات خودبخود سنور جائیں گے۔ ایسا کچھ نہیں ہوگا جیسا تم سوچ رہی ہو ۔ میں تمہارے لئے دعا کروں گی اور جہاں سچی محبت پر رشتوں کی بنیاد پڑی ہو ، وہاں ایسی باتیں بے معنی ہوجاتی ہیں ۔ تمہیں ناصر سے محبت ہے ؟ ” شازیہ خاموش رہی۔ سر جھکائے بیٹھی رہی۔ آنکھوں میں آئے آنسووں کو ضبط کرنے کی کوشش کرتی رہی۔ اتنے میں امی نے آکر بتایا،،

تمہارے ابا کا فون آیا تھا،انہوں نے ناصر کے کولیگ سے پتہ کیا تو پتہ چلا ہے کہ کمپنی کو کچھ نئے پروجیکٹس ملے ہیں ۔ ان پروجیکٹس کی تکمیل پر ان کی ترقی ہوگی۔ لہٰذا تمام ہی افراد دیر تک دفتر میں بیٹھ کر کام مکمل کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ یہی بات ناصر نے بھی بتائی تھی” شازیہ اپنے کیے پر نادم تھی۔ آنسو بہہ رہے تھے۔ اتنے میں چھوٹا بیٹا فہد روتا ہوا آیا۔ ” امی ایان مجھے چاکلیٹ نہیں دے رہا وہ کہہ رہا ہے ، یہ میرے ابو لائے ہیں ۔ تمہارے ابو نہیں لائے ہیں “

شازیہ نے اس کو پیار کیا اور کہا۔” آپ ابو سے کہنا وہ آپ کے لِئے لے آئیں گے۔ فہد نے غیر یقینی کیفیت سے ماں کو دیکھا۔ شازیہ نے ماں اور خالہ سے کہا کہ ” میں گھر جانا چاہتی ہوں۔ مگر ناصر سے جاکر بات کرنے کی ہمت نہیں ۔ کیسے جاوں ۔ کیسے ان کا سامنا کروں گی ؟ ” خالہ نے سمجھایا مگر شازیہ اپنے اندر وہ ہمت نہ پیدا کر پائی۔ آنسو مسلسل بہہ رہے تھے اور دل میں دعائیں کررہی تھی۔

آخر امی نے خالہ سے کہا اور خالہ نے ناصر کو فون کرکے گھر مدعو کیا۔ پہلے تو ناصر نےمنع کیا پھر خالہ کے اصرار پر مان گیا۔خالہ نے ناصر کو بھی شفقت بھرے لہجے میں سمجھایا پھر سب کمرے سے باہر چلے گئے۔ کمرے میں صرف ناصر اور شازیہ رہ گئے۔ دونوں خاموش تھے۔ شازیہ کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ آخر شازیہ نے بہتے آنسووں کے ساتھ ناصر سے اپنے کیے پر معافی مانگی تو ناصر کا دل بھی پسیج گیا۔ اس نے اپنے ہاتھ سے شازیہ کے آنسو صاف کیے اور کہا ” اب مت رونا۔ چلو بچوں کو لےآو، ہم گھر چلیں” ناصر کی بات سن کر شازیہ کی روح تک خوشی سے سرشار ہوگئی۔