ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات

نگران حکومت نے آتے ہی عوام کو ریلیف کے سہانے سپنے دکھائے گئے تھے ان پرپٹرول بم گر ا دیا جبکہ اتحادی حکومت نے جاتے جاتے پٹرول کی قیمت میں بیس روپے فی لیٹر اضافہ کیا تھااوراب نگران وزیراعظم نے بھی تقریباً اتنے ہی مزید نرخ بڑھادئیے۔ جس کے بعد پاکستانی قوم مہنگائی کے نئے طوفان کی زد میںآ گئی ہے۔پٹرول کی قیمتیں بڑھنے سے ٹرانسپورٹروں کی بھی من مانیاں کرنے کا موقع مل گیا ہے کہ کرایوں میں 10 سے 30 فیصد تک اضافہ ہو گیا ہے جس سے ٹرانسپورٹرز اور مسافروں کے درمیان کئی مقامات پر جھڑپوں کی خبریں پڑھنے کو ملیں ۔ دیگر اشیاء کی قیمتوں بھی آسمان کو چھو رہی ہیں۔اگرچہ آئی ایم ایف سے معاملات طے پا جانے کے بعد ملک کا دیوالیہ ہونے کا خطرہ ٹل گیا ہے۔تاہم عالمی مالیاتی ادارے کی سخت ترین شرائط پر عمل کرتے ہوئے مہنگائی میں پستی ہوئی عوام کو مزید مارنے کا پروگرام ’’مرے کو مار شاہ مدار ‘‘کے مصداق ہے۔ مڈل کلاس کے لئے توسفید پوشی کا بھرم رکھنا مشکل ہو چکا ہے۔سالانہ مہنگائی کی شرح 27.57 فیصد بڑھی اور جو قوم جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھے ہوئے ہیں جس کیلئے ایک وقت کی روٹی کا حصول بھی دشوار ہو تا جا رہا ہے ۔آٹے کیلئے لگی لمبی قطاریں اور یوٹیلٹی اسٹورز پر اپنے وطن کے اس غریب و مفلس طبقے کو گھی اور چینی کے لئے دھکے کھاتے ہوئے دل خون کے آنسو روتا ہے ۔

تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے

ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات !

ہمارا ملک پاکستان جو اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا۔ ایک ایسے سرمایہ دارانہ نظامِ معیشت میں جکڑا ہوا ہے جسکے خون خوار نوکیلے دانت ہرشہری کی شہ رَگ سے قطرہ قطرہ لہو نچوڑ رہے ہیں۔ ملت کا بچہ بچہ قرضے کے سود میں قْرقی کر دیا گیا ہے۔ بھوک ، ننگ ، افلاس ، غربت ، فاقے، بیمار، معذوری ، بے روزگاری عدم تحفظ یہاں تک کہ دہشت گردی جیسے جرائم نے بھی اسی منحوس نظام سے جنم لیا ہے۔ہمیں ہوش میں آنا پڑیگا اب ہمیں آنکھیں کھولنا ہونگی ۔ پی ڈی ایم کی 14ماہ کی حکومت بھی بے نشاں منزل، رائیگاں سفر کے سوا کچھ نہیں تھی حالانکہ اپریل 2022ء میں اتحادی حکومت اس دعوے کے ساتھ وجود میں آئی تھی کہ مہنگائی پر قابو پا کر عام آدمی کو ریلیف دیا جائے گا لیکن گزشتہ ڈیڑھ برس بعد کے پر آشوب حالات اس کا بین ثبوت ہیں۔سوال تو یہ ہے کہ اگر ملکی سطح پر 10 روپے کا اضافہ ہوتا ہے تو مافیا و دیگر تاجر حضرات حتی کہ محلوں کہ دوکاندار بھی مرضی کے ریٹ پر اشیاء بھیج رہے ہیں ، ان ذخیرہ اندوزوں کو کنٹرول کون کرے گا؟ اختیارات توحکومتی اداروں کے پاس ہیں تو و ہی ان پرقابو پاسکتے ہیں ۔ کیا کوالٹی کنٹرول اورپرائس کنٹرول ادارے صرف بھتہ خوری یارشوت خوری ہی کے لیے باقی رہ گئے ہیں اورظالم منافع خورتاجروں کوعوام کی رگوں میں بچ جانے والے آخری خون کے قطروں کو بھی نچوڑ لینے کے لیے کھلا چھوڑ دیاگیاہے۔بے شک یہاں مہنگائی کو قابو کرنے کا نہ کوئی معیار (Standard) ہے اور نہ ہی کوئی ایسا موثر طریقہ، جس سے بڑھتی ہوئی مہنگائی کو لگام دی جائے اور مہنگائی کے جن کو واپس بوتل میں بند کیا جائے۔ روزمرہ کی ضرورت کی اشیاء کی قیمتوں میں مسلسل اضافے اور کمر توڑ مہنگائی نے عوام کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔نرخوں میں مسلسل اضافے کی بدولت اس وقت عام آدمی کا سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی ہے۔ا ٓٹا، چینی،گھی، چاول،دودھ ،دالیں، سبزیاں اورگوشت کے ساتھ ساتھ موجودہ دورمیں بجلی،گیس،پٹرول اورادویات بھی بنیادی انسانی ضروریات ہیں۔جن کی ارزاں نرخوں پر دستیابی عوام کابنیادی انسانی حق ہے۔ ہمارااْوپری طبقہ ہر معاملے میں امریکہ اوریورپ کی نقالی کی حدتک پیروی کرنا ضروری سمجھتاہے ،لیکن اس طبقہ نے کیا کبھی یہ سوچنے کی زحمت بھی کی ہے کہ امریکہ اوریورپ میں اشیائے خوردونوش پر حکومت نے کنٹرول کررکھاہے اوروہاں کی حکومتوں اور سپرمارکیٹ بزنسز کااس بات پر اتفاق ہے کہ ان چیزوں کی قیمت کم رہنی چاہیے ،کیوں کہ یہ چیزیں ہر انسان کی بنیادی ضرورت ہیں۔ان ممالک کے علاوہ متحدہ عرب امارات میں بھی کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتیں مستحکم ہیں۔ وہاں بنیادی ضرورت کی اشیاء حکومتی کنٹرول کی وجہ سے برس ہا برس سے بڑھنے نہیں پاتیں۔یہی وجہ ہے کہ وہاں کے عوام اپنے حکمرانوں سے خوش ہیں،کیونکہ ان کویہ بنیادی ضروریات بہ آسانی اورسستے داموں حاصل ہوجاتی ہیں۔اس کے برعکس ہمارے ہاں خوردونوش کی اشیاء کی قیمتوں پر کوئی نگرانی نہیں ہے۔ہردوکان میں اپنی مرضی کے نرخ وصول کیے جاتے ہیں۔قوتِ خریدکی ابتری سے حالت یہاں تک آپہنچی ہے کہ کچھ برس پہلے جو لوگ آٹا چینی، گھی، چاول، دال ہفتے یا مہینے کے لیے اکٹھا خریداکرتے تھے،آج وہ روزانہ کے حساب سے خریدنے پر مجبور ہیں۔نگران حکومت تو یہ کہہ کر بری الذمہ ہوسکتی ہے کہ وہ کسی چیز کے لیے ذمہ دار ہی نہیں اور جو پالیسی پہلے سے چلتی آرہی ہے وہ اسی پر عمل کررہی ہے۔

و ا ئے نا کا می متا عِ کار و ا ں جا تا رہا

اور کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا

’’غریب کا حال تو یہ ہوتا ہے کہ ان کے پاس ایک ہی چادر ہوتی ہے جواوڑھنے اور اوپر لینے کے کام آتی ہے اور مرنے پر اسی چادر کو کفن بنا کر اس کے اوپر ڈال دی جاتی ہے‘‘۔ لمحہ ء فکریہ تو یہ ہے اب اس ایک چادر کو بھی مفلسوں کے لئے چاک دار بنا دیا ہے۔باپ اپنے ہاتھوں سے لخت جگر کو موت کے گھاٹ اتار رہے ہیں۔والدین دریائوں میں اپنے بچوں سمیت کود کر خود کشی کر رہے ہیں اوراس کے لئے ہمارے حکمران ہی ذمہ دار ہیں۔ان مظلوموں کا خون کے چھینٹوں سے انہی کے دامن رنگین ہیں۔ کئی دنوں تک روس کے سستے تیل کے جہازکی آمد کا بھی چرچا رہا اور روسی تیل پاکستان پہنچ بھی چکا ۔مگر کیا عوام کو سستا تیل ملا ؟ ہر گز نہیں۔یعنی چہ معنی دارو!افسوس تو یہ ہے کہ عالمی ساہو کاروں سے قرضے لئیے تو ضرور جاتے رہے ہیں لیکن ہم عوام کو کبھی ریلیف نہیں مل سکا۔ملنے والا تمام قرضہ حکمرانوں کے اللے تللے پر ہی خرچ ہوتا رہا اور پاکستانیوں کے حصے میں صرف قربانی دینا ہی آتا ہے کیونکہ انہی کے ٹیکسوں سے تو ہی یہ سارا قرضہ اترتا ہے۔اگر نیک نیتی اور ایمانداری سے بیرونی قرضے کو ملک و عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کیا جاتا تو آج ہمارا بھی شمار ترقی یافتہ و خوشحال قوموں میں شمار ہوتا۔ ہم ایسے خوش نصیب کہاں ؟چنانچہ موجودہ تکلیف دہ صورتحال میں وطن عزیز معاشی وسیاسی استحکام ناگزیر ہو چکا ہے۔قومی قیادت کا کام قومی دولت کا تحفظ، منصفانہ تقسیم اور انصاف کی فراہمی ہے جبکہ افسوس ناک منظر نامہ یہ ہے کہ نہ تو قومی دولت کا صحیح تحفظ نہ منصفانہ تقسیم اور نہ ہی انصاف کی فراہمی نے عملی شکل اختیار کی بلکہ سیاسی قیادت کی ترجیحات محض حصول اقتدار اور اس کے لئے لڑائیاں تک ہی محدود رہیں ۔موجودہ نازک صورتحال می محب وطن قوتوں پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ باہمی افہام و تفہیم سے اقتدار کی رسہ کشی سے عدم استحکام کے شکار پاکستان میں معاشی ،سیاسی و آئینی بحران کے حل کیلئے اپنا موثر کردار ادا کرے ۔ تاکہ ملک دشمن عناصر کو ہماری کسی بھی کمزوری سے فائدہ اٹھانے کا موقع میسر نہ آسکے ۔اس صورتحال میں جلد عام انتخابات ہونے چاہئیں تاکہ مستقل حکومت قائم ہو جو معاملات کو بہتر بنانے کے لیے کردار ادا کرسکے ۔