یوم آزادی

مایوسی کیوں درست ہے کہ حالات بہت خراب ہیں، مہنگائی نے کمر توڑ دی ہے، قانون کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں اور انصاف نابود ہو چکا ہے۔ رشوت ستانی، اقربا پروری، سفارش، دھونس دھمکی، غنڈہ گردی کا بازار گرم ہے۔ بجلی کے بل اور پیٹرول کی قیمتوں کے بالواسطہ اثرات کے باعث اشیاء خوردو نوش عوام کی پہنچ سے دور ہیں۔ گلی، بازار، محلہ کچرے سے بھرے ہے۔ سڑکیں ٹوٹی ہیں اور پارک اجڑے ہوئے ہیں۔

یوں لگتا ہر طرف مایوسی کے گھنے سائے ہیں جو دل کو گھمبیر کر رہے ہیں۔ آزادی کے ساتھ لفظ جشن جچ نہیں رہا۔ تو کیا اس کا مطلب ہے آزادی بے معنی، بے وقعت ہے۔ ہمارے اسلاف کی قربانیان رائیگاں گئیں۔ کیا یہ سب ایسے ہی تھا اور ہمیشہ ایسا ہی رہے گا۔ ؟

جب یاسیت غلبہ کرتی ہے اور دل ڈوب ڈوب جاتاہے تو امید کی کرن کے طور پر آیت یاد آتی ہے

قد جاء الحق وزھق الباطل

ان الباطل کان زھوقا۔

پیارے نبی کریم سید المرسلین محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جب تبلیغ کا آغازکیا تھا تو حالات اس سے زیادہ برے تھے۔ ہر برائی عروج پر تھی۔ مشرکوں میں کلمہ حق بلند کرنا آسان نہ تھا مگر نبئ رحمت نے اللہ کی اس پرنعرہ توحید، نعرہ حق بلند کیا۔ بتدریج معاشرےکوبرائیوں سے پاک کیا۔

تو کیا ہم مسلمان کلمہ گو اللہ اور رسول پرایمان رکھنے والے اپنے معاشرے سے پھر سے برائیوں کا خاتمہ نہیں کر سکتے۔ کیا اس بدامنی، مہنگائی، ناانصافی اورگندگی کے ذمہ دار صرف مقتدر حلقے ہیں؟ کیا رشوت،سفارش، نقل، اقربا پروری، بجلی چوری، ذخیرہ اندوزی، مزدور کا استحصال، جعلی ادویات اور کھانے کی چیزوں میں ملاوٹ صرف سیاستدان کر رہے ہیں؟

اپنے گھر کا گند دوسرے کے دروازے پر کون پھینک رہا ہے؟ وراثت کی غیر منصفانہ تقسیم کو کون ذمہ دار ہے۔؟ راتوں رات امیر ہونے کے لیے چور دروازے صرف سیاستدان استعمال کر رہے ہیں؟

بیشک پڑھے لکھے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں نوکری کی تلاش میں جوتیاں چٹخاتے پھرتے ہیں، نوکری کے مواقع نہیں اور بغیر کسی منصوبہ بندی کے ہر سال چار سالہ بی ایس ڈگری ہاتھ میں تھامے ایک بڑی کھیپ کالج اور یونیورسٹیوں سے نکل رہی اور مایوسی کا شکار ہو رہی ہے۔ ہم ان کو ہنرسیکھنے پر راغب کیوں نہیں کر رہے؟ کیوں نوجوان ہاتھ سے کام کرنے، چھوٹے بجٹ سے اپنا کاروبار/ کام شروع کرنے میں شرمندگی محسوس کرتے ہیں؟ لڑکیاں سلائی کڑھائی، کھانا پکانے کوجدید اندازمیں استوار کرکے یا گھریلو پیمانے پر کچھ اشیاء بنا کر بیچنے کی حکمت عملی کیوں نہیں اپناتیں؟۔ دیہاتی لڑکے پڑھ لکھ کر زراعت اور مویشی پالنے سے دور کیوں ہو رہے ہیں؟ اپنے علم کو ان شعبوں کو بہتر بنانے میں کیوں نہیں استعمال کر رہے۔

ہم کیوں کسی جادوگر کے انتطار میں ہیں جو ہمیں ہاتھ پکڑ کرسونے کی وادیوں لے جائے یا امریکہ و یورپ کا ویزہ لگوادے۔ ہم کیوں اپنی خامیوں کو دور کر کے اپنی ذات اور معاشرے کوبہتربنانے کی کوشش نہیں کررہے۔ کیوں اس انتطار میں ہیں کہ کوئی امداد کے نام پرہمارا گھر بنوا دے، راشن دے، شادیاں کروا دے۔ ہمیں کیوں امداد کے نام پر بھیک لینا منطور مگر محنت کر کے تھوڑے معاوضے پر قناعت نہیں۔

معاشرے کے بگاڑ کے ذمہ دار صرف سیاستدان اور بادشاہ گر نہیں۔ ہم خود بھی ہیں۔ اج کسی سیاسی پارٹی سے وابستگی کی وجہ سے پاکستان، اپنے گھر کو برا بھلا کہنا، آزادی کی نعمت کی ناشکری کرنا ہمیں بہت گہری پستیوں میں لے جائے گا جبکہ ہم چھہترسال سے سیاسی پارٹیوں اور ان کے راہنماوں کی قلابازیاں دیکھ رہیں۔

ہمیں امید کا دامن نہیں چھورنا۔ ہمیں اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کرتے ہوئے کلمہ حق بلند کرنا ہے۔ ہمیں پہلے خود، پھر اپنے گھر، گلی محلے کو کچرے سے ہی نہیں معاشرتی برائیوں سے پاک کرنا ہے۔ اپنا کردار ایمانداری سے نبھانا ہے۔

اس دفعہ یوم آزادی پر جشن نہیں تجدید عہد کرنا ہے۔ اللہ کی نعمت کا شکرادا کرتے ہوئے اس کی حفاظت اورسر بلندی کے لیے اپنے تن، من دھن کی بازی لگانے کا عہد۔ سیاستدان اور بازیگر کیا کرتے ہیں اس سے قطع نظر اپنے فرائض تندہی سے ادا کرنے ہیں۔ بھیک نہیں لینی، محنت کی کم کمائی میں گزاراکرنا ہے۔ اج صرف ضروریات پوری کرنی ہیں حق حلال سے کل اللہ پاک آسائشیں بھی دے گا۔ مایوسی کے اس دور میں اللہ پر توکل کرتے ہوئے امید کا دیا جلانا ہے۔ ہمیں پاکستان پر فخر ہے اور باہر کی دنیا میں اپنے ملک کو قابل فخر بنا کر پیش کرنا ہے، ہرے جزیروں کی خاطر یہ دشت مت چھوڑو

تمھیں حیات نہ آئے گی راس پانی میں

پاکستان پائندہ باد۔