مجھے اقبال اور قائد کا پاکستان چاہئے

ذوق آزادی کا سچا ترجماں چودہ اگست

بن گیا اپنے لئے منزل نشاں چودہ اگست

ہے بظاہر ایک دن لیکن ہے صدیوں پر محیط

ایک لمحہ ہے مگر ہے جاوداں چودہ اگست

یوم آزادی پر سبز و سفید رنگ کے جھنڈے، جھنڈیاں، بیجز اور باجے گاجے بازاروں میں سج گئے ۔ 14 اگست کو پاکستانی نوجوان اپنی سواریوں پر سبز ہلالی پرچم سجائے، باجے بجاتے، ون ویلنگ کرتے ہوئے گلیوں محلوں میں گھوم کر یوم آزادی منارہے ہیں۔ دکانداروں کا کاروبار خوب چمک رہا ہے۔ لیکن میرا دل خون کے آنسو رو رہا ہے۔ میری نظریں اس پاکستان کو تلاش کر رہی ہیں جس کا خواب اقبال نے دیکھا تھا اور محمد علی جناح نے اسے تعبیر عطا کی تھی۔

میرا علم یہ کہتا ہے کہ مفکر پاکستان علامہ محمد اقبال نے تاریخ کے ہر موڑ پر برصغیر کے مسلمانوں کی رہنمائی کی۔ میدان سیاست میں انکا سب سے بڑا کارنامہ دو قومی نظریہ کی بھرپور وکالت اور برصغیر کے مسلمانوں کے لئے ایک علیحدہ ریاست کا تصور ہے۔ انھوں نے آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے دسمبر 1930 کو الہ آباد میں جو تاریخ ساز خطبہ دیا، اسے تقسیم ہند اور قیام پاکستان کی ایک اہم دستاویز تسلیم کیا جاتا ہے۔، جسکی بنیاد دو قومی نظریہ پر رکھی گئی۔ گویا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا قیام شاعر مشرق کا وہ عظیم تصور اور سنہری خواب تھا جو بالآخر 14 اگست 1947ء کو شرمندۂ تعبیر ہوا اور دنیا کے نقشے پر ایک ایسی مملکت کا ظہور ہوا جسکی بنیاد کا مقصد ہی قرآن وسنت کی بالادستی اور شریعت محمدی کا نفاذ تھا۔

تحریک پاکستان کے دوران قائداعظم مسلسل اس بات پر زور دیتے رہے کہ پاکستان کے قیام کی جدوجہد محض اسلئے مطلوب نہیں کہ وہ مسلمانوں کے لئے زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنا چاہتے ہیں بلکہ یہ ساری جدوجہد اس لئے ہے کہ مسلمانوں کا اسلامی تشخص قائم ہو اور وہ اسلام کے مطابق اپنی آزاد سرزمین پر قومی زندگی کی تشکیل کر سکیں۔ پاکستان بننے کے بعد قائداعظم زیادہ دیر زندہ نہ رہے لیکن اگست 1947 سے اگست 1948 تک کے انکے خطبات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اہل پاکستان کو مسلسل یہ احساس دلاتے رہے کہ پاکستان کو حقیقی معنوں میں ایک اسلامی، جمہوری اور فلاحی مملکت بنانا بحیثیت قوم اب انکی ذمہ داری ہے۔فروری 1948 کو امریکہ کے عوام کے نام اپنی براڈکاسٹ تقریر میں پاکستان کے آئین کا ذکر کرتے ہوئے قائداعظم نے فرمایا ۔

“پاکستان مجلس آئین ساز کو ابھی پاکستان کا آئین بنانا ہے۔ میں نہیں جانتا کہ اسکی حتمی شکل کیا ہوگی، لیکن مجھے یقین ہے کہ یہ اسلام کے بنیادی اصولوں پر مبنی جمہوری آئین ہوگا۔ ہماری زندگی میں یہ اصول آج بھی اسی طرح قابل عمل ہیں جس طرح آج سے تیرہ سو سال پہلے تھے۔ اسلام اور اسکے بنیادی تصور نے ہمیں جمہوریت کی تعلیم دی ہے۔ اس نے ہمیں مساوات، انصاف اور ہر شخص کے ساتھ سچائی کا رویہ سکھایا ہے۔ ہم ان عظیم روایات کے وارث ہیں اور پاکستان کا آئین بنانے کے سلسلہ میں اپنی ذمہ داریوں سے پوری طرح آگاہ ہیں۔ ہمارے ہاں ہندو، عیسائی، پارسی کافی غیر مسلم آباد ہیں۔ انہیں یہاں دوسرے شہریوں کی طرح ہی حقوق و مراعات حاصل ہونگی اور پاکستان کے معاملات میں اپنا کردار ادا کرنے کا انہیں پورا موقع حاصل ہوگا۔”

یکم جولائی 1948ء کوا سٹیٹ بنک آف پاکستان کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے قائداعظم نے پاکستان کے لئے موزوں اقتصادی نظام کے بارے میں اپنے خیالات کا یوں اظہار کیا۔

“میں اسٹیٹ بنک کے تحقیقی ادارے کی ان کاوشوں پر گہری دلچسپی سے نگاہ رکھوں گا کہ آپکی ریسرچ آرگنائزیشن بنک کاری کے ایسے طریقے کس خوبی سے وضع کرتی ہے جو معاشرتی اور اقتصادی زندگی کے اسلامی تصورات کے مطابق ہوں۔ مغرب کے معاشی نظام نے انسانیت کے لئے بے شمار مسائل پیدا کر دیئے ہیں۔ اگر ہم نے مغرب کا معاشی نظریہ اور نظام ہی اپنا لیا تو عوام کی خوشحالی حاصل کرنے کے لئے ہمیں کوئی مدد نہ ملے گی۔ اپنی تقدیر ہمیں اپنے منفرد انداز میں بنانا پڑے گی۔ ہمیں دنیا کے سامنے مثالی معاشی نظام پیش کرنا ہے جو انسانی مساوات اور معاشی انصاف کے سچے اسلامی تصورات پر قائم ہو۔ ایسا نظام پیش کر کے ہم بحیثیت مسلمان اپنا مشن پورا کریں گے اور انسانیت کو حقیقی امن کا پیغام دیں گے۔

مجھے بتائیے کہ کیا ہمارے ملک میں قائداعظم کی خواہش کے مطابق اسلامی نظام حکومت قائم ہو گیا ہے؟ افسوس کہ قائد کے جانشیں انکی اس خواہش کی تکمیل نہ کرسکے۔ اگر ایسا ہو جاتا تو اج پاکستان کی بیٹی عافیہ صدیقی دیار غیر میں پابہ زنجیر نہ ہوتی۔ معصوم زینب جیسی کوئی نوخیز کلی انسان نما بھیڑئیے کے ہاتھوں مسلی نہ جاتی، کسی محنت کش کی بیٹی رضوانہ محافظ قانون کے گھر میں ظلم کا شکار نہ ہوتی۔ حالانکہ تاریخ مسلم نے تو وہ منظر بھی دیکھا کہ ایک عورت نےصنعا سے حضر موت تک تنہا سفر کیا اور اسے اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی کا خوف نہ تھا۔

مقام افسوس ہے کہ آج ہم یوم آزادی ایسے ماحول میں منا رہے ہیں کہ ملک میں سیاسی محاذ آرائی شدید تر ہو رہی ہے۔ حکمران طبقہ اور اس کے حالی موالی لوٹ مار میں مصروف ہیں۔ عوام مہنگائی، بےروزگاری بدامنی اور سماج دشمن عناصر کے خوف تلے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ پولیس کی بدعنوانی اور کرپشن نے شرفا کی نیند حرام کر رکھی ہے ۔ حکومتی محکمے رشوت خوری کا شکار ہیں۔ ایسے میں عام قانون پسند شہری سخت بے اطمینانی اور بے یقینی کا شکار ہیں۔

قائد اعظم نے قیام پاکستان کے بعد ایک تقریر میں کہا تھا ” ہم نے آگ اور خون کا دریا پار کر کے پاکستان حاصل کیا ہے۔ اب یہ ہر پاکستانی کا فرض ہے کہ وہ اسکی حفاظت کا فریضہ انجام دے اور اسکی تعمیر و ترقی کے لئے دن رات کام کرے ۔”

آئیے اس یوم آزادی کے موقع پر اپنے گر بیانوں میں جھانکیں اور اپنے ضمیر سے دریافت کریں کہ ہم نے بابائے قوم کے اس فرمان پر عمل کیا ہے ؟ کیا ہم اپنے عمل سے مطمئن ہیں ؟ اگر ایسا نہیں تو آئیے آج کے دن عہد کریں کہ ہم وطن عزیز کی تعمیر میں دن رات ایک کر دیں گے، اسلامی شعار کو اپنی زندگیوں میں جاری وساری کریں گے اور اپنے لئے ایسی صالح اور دیانت دار قیادت منتخب کریں گے جو پاکستان کو اسلام کا قلعہ بنادے۔ اللہ تعالٰی ہمیں اسکی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)

آئیے تجدید عہد استقامت سب کریں

ہو نہ جائے پھر کہیں ہدگماں چودہ اگست

جس کے دم سے شمعٔ آزادی ضیا افروز ہو

کہہ رہا ہے اُس لہو کی داستاں چودہ اگست