زنجیریں غلامی کی !

آزادی ایک عظیم نعمت ہے جو اللہ کے فضل و کرم، اولوالعزم قائدین کی انتھک محنت اور لاکھوں جانوں کا نذرانہ پیش کر کے حاصل ہوئی لیکن بدقسمتی سے،،

آج کیا ہے آزادی

 کوئی سمجھتا ہی نہیں

 سوچتا ہی نہیں

 شاید اس واسطے

 کہ ہمیں مل گئی

 اپنے اجداد سے

 آزادی کی قدروقیمت جاننی ہے تو کشمیریوں سے پوچھیے جو قیام پاکستان سے لے کر آج تک اپنی آزادی کے لیے خون کے نذر انے پیش کر رہے ہیں، اہل فلسطین سے پوچھیے جن کو سنگینوں کے زور پر اپنی ہی زمینوں سے بے دخل کیا جا رہا ہے بنگال کے ان بے بس بہاریوں سے پوچھیے جو آج تک پاک وطن سے محبت کی پاداش میں اچھوتوں کی سی زندگی گزار رہے ہیں، دختر پاکستان عافیہ صدیقی سے پوچھیے جسے اسلام سے محبت کے جرم میں دشمن کے ہاتھوں فروخت کر دیا گیا ہے۔

آزادی کی قیمت روح قائد و اقبال سے پوچھیے جنہوں نے ہمارے آج کے لیے انگریزوں اور ہندوؤں کے آگے گھٹنے ٹیکنے سے انکار کر دیا، قفس میں قید ان مجاہدین سے پوچھیے جنہیں بنا کسی جرم کے اپنوں سے جدا کر دیا گیا ہے۔ غرض آزادی ایک ایسی انمول نعمت ہے جسے چرند پرند بھی بخوبی سمجھتے ہیں۔

 لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا ہم آزاد ہیں؟ کیا جس مقصد کے لیے ہمارے آباؤ اجداد نے خون کے نذرانے پیش کیے ہم نے اس عظیم مقصد کے لیے جدوجہد کی؟ کیا ہم نے اسے اسلام کا قلعہ بنانے کے لیے اپنی توانائیاں صرف کیں؟ قائد اعظم تو پاکستان کو ایسی ریاست بنانا چاہتے تھے جو نبی آخر الزماں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ طیبہ میں بنا کر دکھائی۔ کیا آج کے پاکستان کا موازنہ مدینہ النبی سے کیا جا سکتا ہے؟ نہیں’ ہرگز نہیں۔ نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ان تمام سوالوں کا جواب نفی میں ہے۔

 ابھی تک چمٹی ہیں پاؤں سے زنجیریں غلامی کی

 دن آجاتا ہے آزادی کا آزادی نہیں آتی

ہم نے انگریزوں سے جسمانی آزادی تو حاصل کر لی مگر ذہنی طور پر آج تک غلام ہیں۔ افسوس کہ قائد کی زندگی نے وفا نہ کی اور وہ پاک وطن پاکستان کو اسلام کاقلعہ بنانے سے قبل ہی اس دنیا فانی سے کوچ کر گئے اور ان کے بعد آج تک پاکستان کو کوئی ایسا بے باک و نڈر حکمران میسر نہ آیا جس کی قیادت میں پاکستان تیزی سے ترقی کی منازل طے کرتا اور دنیائے عالم میں پاکستان کا نام فخر کی علامت بن پاتا۔ آج ہمارے ہونٹوں پر خاموشی کا سایہ ہے اور ہمارے دلوں پر یزید وقت کا خوف طاری ہے۔

آج کا پاکستان گونگا پاکستان بن چکا ہے۔ آج امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرنے والوں کو بے وقوف سمجھا جاتا ہے آج بددیانت اور بد کردار حکمرانوں پہ غلط فیصلوں کی بدولت ہمارا وطن غربت،مہنگائی، بے روزگاری، رشوت، سود، کرپشن، فحاشی، بے حیائی اور بے شمار دیگر قانونی اور اخلاقی جرائم کا گڑھ بن چکا ہے۔ آج غریب کے پاس ملک چھوڑنے کے پیسے ہیں نہ ملک میں رہنے کے اس لیے خود کشی کرنے والوں اور ذہنی مریضوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ اچھائی اور برائی کے معیار بدل چکے ہیں۔ آج ہم شریف کو بے وقوف، مکار کو سمجھدار، قاتل کو بہادر اورمالدار کو بڑا آدمی سمجھتے ہیں۔

تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے

 ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات

 تاریخ کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جب تک ہم نے اپنی تہذیب کو تھامے رکھا تو تیزی سے ترقی کی منازل طے کرتے رہے اور قیصروقصری کے ایوانوں میں لرزہ طاری کر دیا۔ ہم سیف اللہ اور اسد اللہ کا لقب پانے والے، ہم سومنات کے بتوں کے ٹکڑے کر دینے والے، ہم بحر ظلمات میں گھوڑے دوڑانے والے ہیں۔

ہم ذرے ہیں آفتاب کے خیرا کیے ہوئے

تعلیم کا میدان ہو یا سیاست کا، معیشت ہو یا معاشرت، طب ہو یا ریاضی ہر میدان میں اہل یورپ مسلمانوں کی برتری کا لوہا مانتے رہے اور جب ہم نے اپنے دین کے سنہری اصولوں کو پس پشت ڈالا تو اغیار کے آلہ کار بن گئے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم جن کے ہم جانثار اور جن کی حرمت کے لیے ہم اپنا تن من دھن قربان کر دینے کے دعوے دار ہیں لیکن ان کے لائے ہوئے دین پر عمل کرنے کو تیار نہیں۔ دشمن کتاب اللہ اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حرمت کو پامال کر رہے ہیں اور ہم میں اتنی قوت نہیں کہ انہیں منہ توڑ جواب دے سکیں آخر کیوں۔؟

ان تمام مسائل کا واحد حل صرف اور صرف ایک دیانت دار، باکردار، خوف خدا رکھنے والی ذمہ دار بے خوف قیادت ہی ہے جو ہمیں کھویا ہوا مقام دلا سکتی ہے اور اقوام عالم میں پاکستان کا نام فخر سے بلند کر سکتی ہے۔ وطن سے محبت ایمان کا حصہ ہے اس سے انکار ممکن نہیں لیکن اس سے اظہار محبت کا طریقہ ظلم کے خلاف کھڑے ہونا ہے نا کہ باطل کے سامنے گونگے بن جانا۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ محبت کا دعویٰ تو حُسین سے ہو اور ساتھ یزید کا دیا جائے۔ آئیے آج عہد کریں کہ خدا سے پھرے ہوئے لوگوں کو دنیا کی رہنمائی اور فرمانروائی کے منصب سے ہٹا کر زمام کار مومنین صالحین کے ہاتھ میں دیں گے اور کفر کو کفر کہہ کر پکاریں گے تاکہ قیام پاکستان کے مقاصد حاصل ہو سکیں اور ہمیں ایک ایسی بستی میں رہنا نصیب ہو،

جہاں جھوٹ کا کاروبار نہ ہو

 دہشت کا بازار نہ ہو

 جہاں منصب سے انصاف ملے

دل سب کا سب سے صاف ملے

 ایک آس ہے ایسی بستی ہو

 جہاں روٹی زہر سے سستی ہو