گھر تو آخر اپنا ہے

دیار غیر میں اس کو آئے ہوئے اٹھ سال ہوگئے تھے، ابھی کل کی ہی جیسی بات لگ رہی تھی، وہ سوچتے سوچتے اپنے دیس جا پہنچا، امی کتنی خوش تھیں میرے انٹر کے رزلٹ آنے پر اور کیوں نہ ہوتی مابدولت نے سیکنڈ پوزیشن جو لی تھی اور انٹری ٹیسٹ بھی میڈیکل کا کلیئر کرلیا اور پھر ڈاکٹری کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد ریزی ڈینسی کے لیے اپلائی کر دیا اور یوں ٹیسٹ کلیئر کرنے بعد امریکہ چلے آئے امی سے اس وعدے کے ساتھ کہ پڑھائی مکمل کر کے وطن واپس آئیں گے-

عمر میرا کلاس فیلو تھا اس کو اپنے ملک انڈیا سے بڑی محبت تھی وہ کہتا پڑھائی ختم کرنے کے بعد میں واپس چلا جاؤں گا وہاں میرے ماں باپ اور رشتےدار ہیں جن کو میری ضرورت ہے میں اپنی ماں کا خواب ہوں، اماں کہتی یہاں(انڈیا )بہت غربت ہے لوگ اپنے کھانے کا ہی کریں تو بڑی بات ہے بیماریوں کا علاج کیسے کریں گے- میں نے عمر سے کہا تمہارے ملک کے حالات اتنے خراب ہیں آئے دن مسلمانوں کو شر پسند عناصر جان سے مار رہے، روزگار تم لوگوں پر تنگ کیا جارہا اور عزت و جان ومال کی کوئی حفاظت نہیں پھر بھی تم یہاں سے جانا چاہ رہے وہ بولا مجھے اپنے ملک سے بہت محبت ہے چاہے جتنی بھی تکالیف ہوں پھر بھی مجھے اس کی مٹی سے پیار ہے وہاں کے کھیت کھلیان میں پل بڑھ کر جوان ہوا میں اسں کی خوشبو کو اپنے سے الگ نہیں کر سکتا-

رات گھر آکر کھانے سے فارغ ہوکر بستر پر آیا تو اچانک عمر کی باتوں پر غور کیا اور سوچا وہ ایسے ملک واپس جانا چاہتا جہاں اس کی جان کو دن رات خطرہ ہے لیکن اس کو ملک سے محبت اور لوگوں کی خدمت زیادہ عزیز ہے اور ایک میں ہوں جو صرف اس لیے نہیں جانا چاہتا کہ پاکستان کے حالات ٹھیک نہیں یہاں ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، اُبلتے گٹر آپ کی مہمان نوازی کرتے، جھوٹ، کریپشن، مہنگائی سب مل کر آپ کو ختم کر رہے ہوتے لیکن اس میں پاکستان کا کیا “قصور” ہے ہم ایک آزاد ملک کے شہری تو ہیں، نہ جانے کس کس طرح کی قربانیاں دے کر ہمارا ملک بنا اور میں نے امی کواسی وقت کال ملائی کہ میں اپنے پیارے وطن پاکستان آرہا ہوں کیونکہ

موج بڑھے یا آندھی آئے دیا جلائے رکھنا ہے گھر کی خاطر سو دکھ جھلے گھر تو آخر اپنا ہے