قیام پاکستان کے 76 سال

76 برس قبل اسلام کے نام پر معرض وجود آنے والے ہمارے ملک ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان ‘‘ میں گزشتہ آٹھ دہائیوں میں نہ تو اسلامی نظام نافذ ہوسکا اور نہ ہی یہاں جمہوری قدریں جڑ پکڑسکیں۔ اہل پاکستان جانتے ہیں کہ شاعر مشرق علامہ محمد اقبال نے1930 ء میں تصور کی آنکھ سے پاکستان کا خواب دنیا کے نقشے پر دیکھا، دس سال وہ مسلمان قوم کی آنکھوں میں اس کی جوت جگاتے رہے۔ بالآخر ان کی رحلت کے بعد1940 ء میں قراردادِ لاہور کی صورت میں مسلمانوں نے اس کو عملی تعبیر دینے کی جد و جہد کا اعلان کیا، اور بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی کاوشوں اور ہزاروں مسلمانوں کی قربانیوں سے ہمیں اپنا وطن پاکستان نصیب ہوا، جس کی آزاد فضاؤں میں ہم خود کو پاکستانی کہہ کر فخر محسوس کرتے ہیں۔

حصول آزادی کے لئے جو قربانیاں دی گئیں، اسے ایک عام سی بات نہیں سمجھا جاسکتا، کتنے گھر قربان ہوئے ،کتنی عزتیں لٹیں، کتنے لوگ قید و بند کی صعوبتوں سے گزرے، اورکتنے لوگوں کے وجود خاک میں ملے، تب جا کر آزادی نصیب ہوئی۔ یوم آزادی مناتے ہوئے ہمیں غور کرنا چاہیے کہ آزادی ہمیں کس سے حاصل کرنی تھی؟ ہمیں کافرانہ نظام سے، سود کے معاشی نظام سے آزادی چاہیے تھی، عدلیہ میں وہ قانون چاہیے تھا جو اﷲ کے رسول نے اﷲ کی کتاب کی صورت میں عطا فرمایا۔ سیاسیات کا وہ راستہ چاہیے تھا جو آزادانہ ہے۔ جو اﷲ اور اﷲ کے رسول نے عطا فرمایا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ آٹھ دہائیوں میں بھی قیامِ پاکستان کے محرکات اور مقاصد بہت سے حوالوں سے پورے نہیں ہوئے، ہم ابھی تک اپنے سیاسی، سماجی اور معاشی نظام کا ہی تعین نہ کر سکے۔ ہر دور میں ہماری تغیر پزیر پالیسیوں میں موجود تضادات، الجھاؤ، انتشار اور بے یقینی کی کیفیت نے ہماری اجتماعی سوچ و شعور کو پختہ ہی نہ ہونے دیا۔ نہ صرف قیامِ پاکستان کے مقاصد بلکہ بنیادی نظریے پر بھی شکوک و شبہات کے سائے پھیلائے گئے ، اس سے بھی بڑھ کر دستور، قانون اور اجتماعی اخلاقیات کے ہر اصول و ضابطے کو پارہ پارہ کیا گیا۔ نتیجتاً حصول آزادی کے76 سال بعد بھی ہم اپنی آزادی کی بقاء اور نظریاتی تشخص کی حفاظت کی جد و جہد کر رہے ہیں۔

ہمیں بحیثیت قوم غور کرنا چاہیے کہ ہماری منزل کیا تھی، ہم کس سمت میں چلے تھے۔ اس عرصہ میں کوئی کمائی کی تو کیا، کچھ گنوایا تو کیا؟ گویا ہمارا میزانیہ کیا ہے۔ پھر مزید یہ کہ داخلی اور بین الاقوامی اعتبار سے ہم اس وقت کہاں کھڑے ہیں اور حالیہ بحرانوں میں بچاؤ کا کوئی راستہ ہے کہ نہیں؟ اگر ہے تو کون سا ہے ؟ پاکستان نے 76 برس کے سفر میں بہت کچھ پایا ہمیں وطن عزیز ملا، اپنی قومی شناخت ملی اور پاکستان عالم اسلام کی پہلی اور دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت بن گیا۔ قیام پاکستان کے وقت ملک میں اکا دکا صنعتیں اور چھوٹے کارخانے تھے اور کوئی بڑی قابل ذکر صنعت نہ تھی، جب کہ آج ہماری ٹیکسٹائل کی صنعت دنیا میں ایک اہم مقام حاصل کر چکی ہے، آج پاکستان دفاعی لحاظ سے ایک مضبوط ملک ہے، ہماری ایٹمی ٹیکنالوجی دنیا میں بہترین ہے۔

ہمارے ملک کی اسٹاک ایکسچینج کارکردگی کے حوالے سے دنیا میں بہترین اسٹاک ایکسچینج قرار دی گئی ہے۔ ترقی کے ا س سفر کو زیرو سے شروع کر کے ہم آج اس مقام تک پہنچے ہیں جو کہ ایک قابل فخر بات ہے ۔ لیکن ہماری کارکردگی اس سے بہتر ہو سکتی تھی اگر ہم اخلاص سے ملک کی ترقی کے لئے کوشش کرتے ،ذاتی مفادات کو قومی مفادات پر ترجیح دینے سے ہم آج مشکلات کا شکار ہوئے۔ سیاسی سطح پر پورے 76 سال میں افراتفری اور عدم استحکام کا دور دورہ رہا۔ کبھی حکومتیں بن رہی ہیں، بگڑ رہی ہیں، ایک تکون ہے جو حرکت کرتی ہے، اس کا کبھی ایک رخ سامنے آ گیا کبھی دوسرا رخ سامنے آگیا۔ ہماری سیاسی تاریخ کا ایک طویل عرصہ فوجی حکمرانوں کے ادوار پر مشتمل ہے ، اس کا نتیجہ ہے کہ ہم سیاسی سطح پر ایک نابالغ اور اپاہج قوم کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔

معاشی سطح پر ہمارا ریکارڈ بد ترین ہے، بھاری بھر کم بیرونی قرضوں کا بوجھ قوم کے کندھوں پر ہے، ہر ہر پاکستان اڑھائی لاکھ روپے سے زائد کا مقروض ہے۔ امن و امان کی سطح پر نقص امن، قتل، ڈکیتی، رہزنی اور اغواء برائے تاوان معمول کا حصہ بن چکے ہیں۔ شرح خواندگی دوسری اقوام کے مقابلے میں جو ہمارے ساتھ آزاد ہوئیں ان سے بہت کم ہے، نظام تعلیم عصری اعتبار سے جوہر قابل پیدا کرنے میں ناکام رہا ہے۔ تعلیم اب یہاں ایک کاروبار اور نفع بخش صنعت بن چکی ہے۔ اخلاقی سطح پر جھوٹ، وعدہ خلافی اور خیانت انتہائی عروج پر ہیں۔ ہم صنعتی ترقی کی وہ سطح حاصل نہیں کر سکے جہاں دنیا کے دوسر ممالک پہنچ چکے ہیں۔

غربت، بے روزگاری، مہنگائی، انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں روز بروز بڑھ رہی ہیں۔ بلا امتیاز سستا اور فوری انصاف، پینے کا صاف پانی، تعلیم و صحت سمیت بنیادی سہولتیں وطن عزیز کے تمام شہریوں کو میسر نہیں۔ موجودہ غیر یقینی صورتحال میں صنعتکاری کا عمل رک گیا ہے جس سے ملازمتوں کے مواقع محدود ہو گئے ہیں۔ شعبہ زراعت جو کہ ہماری ملکی آمدنی کا بڑا ذریعہ تھا، اس کی تباہ حالی کے بعد اس پر اب توجہ دی گئی ہے اور کسانوں کو سہولتیں دے کر زراعت کو پھر سے فروغ دیا جارہا ہے۔ آج ہمیں سوچنا ہو گا کہ آزاد وطن میں کروڑوں افراد کے حقوق پورے کئے بغیر آزادی کا خواب کیسے مکمل ہو سکتا ہے۔ جب ہم اسلام کے طرز حیات پر پورے نہیں اترتے تو ہمیں جشن آزادی کے بجائے اپنی صفوں کو درست کرنے کی سعی کرنا ہو گی۔ ہمیں ابھی مکمل آزادی کی جدوجہد کرنا ہوگی اور جمہویت کو فروغ دے کر اہل قیادت کو آگے لانا ہوگا۔ ایک اسلامی فلاحی سیاست کے لئے جدو جہد کرنا ہوگی تاکہ ہم اپنے معاشی، عدالتی، سیاسی، تعلیمی معاملات، اپنا مستقبل اور اپنا حال قرآن وسنت کے سانچے میں ڈھال سکیں۔ جہاں ہر ایک کے لئے سلامتی ہو، امن ہو، ہر ایک کو انسانی حقوق ملیں، رزق حلال میسر ہو، عزت و آبرو کا جان ومال کا تحفظ میسر ہو۔