القرآن شِفاءٌ لِّما فی صُدور

اللہ تعالیٰ نے قرآن میں سینوں کے امراض کی شفاء اتاری ہے۔ یہ امراض کیا ہیں؟ کینہ، بغض، حسد، شُحَّ نفسى(ہمارے نفس کی لالچ)، نفاق، مستقبل کا بے پناہ خوف، مایوسی، ناشکری، اور ایسے ان گنت امراض جو ہماری زندگیوں میں بے سکونی پیدا کرتے ہیں۔۔۔یہ امراض ایک طرح کے اندھیرے اور قرآن کی زبان میں ظلمٰت ہیں۔۔۔ کبھی آپ نے غور کیا کہ اندھیرا کیا ہوتا ہے؟ اندھیرا بذاتِ خود کچھ نہیں یہ بس روشنی کی غیر موجودگی ہے جس کو ہم اندھیرا کہتے ہیں، یہ نور کی غیر موجودگی ہے جسے اللہ تعالیٰ قرآن میں ظلمٰت کہتے ہیں۔۔۔ ہمارے سینے کے امراض بھی اسی طرح ہیں۔۔۔مستقبل کا خوف اور مایوسی اللہ تعالیٰ پر توکل کی غیر موجودگی سے آتا ہے اور کفرانِ نعمت اور حسد جیسے امراض شکر کی کمی سے پیدا ہوتے ہیں اسی طرح نفاق ایمان کی کمزوری سے جنم لیتا ہے۔ یہی معاملہ دوسرے امراض کا بھی ہے۔۔۔ ہمارے سینوں کے یہ امراض نہ صرف ہماری مثبت توانائی کو ضائع کرتے ہیں بل کہ ہمارے اردگرد موجود لوگوں کو بھی متاثر کرتے ہیں۔۔۔یہ امراض ہمارے دلوں کی سیاہی اور ہمارے سینوں میں نور کی کمی کی علامت ہیں۔۔۔

اللہ تعالیٰ قرآنِ حکیم میں فرماتے ہیں: لوگو تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے نصیحت آ گئی ہے۔ یہ وہ چیز ہے جو دلوں کے امراض کی شفاء ہے اور جو اسے قبول کر لے ان کے لئے رہنمائی اور رحمت ہے، (سورۃ یونس: 57)

ہم اس شفاء سے اس لئے محروم ہیں کیونکہ ہماری قرآن کے بارے میں understanding بہت غلط ہے۔ قرآن کے ذریعے شفاء حاصل کرنا بلکل ایسے ہے جیسے  antibiotic course ہوتا ہے اگر دوائی کا ناغہ کیا تو بیماری دوبارہ بڑھ جاتی ہے اور دوا کا اثر زائل ہو جاتا ہے۔ ہم لوگ بہت بے صبرے ہیں، چاہتے ہیں کہ ایک ہی dose سے فائدہ ہو جائے اور جب ایسا نہیں ہوتا تو ہم مایوس ہو جاتے ہیں۔ قرآن ایک پوری journey ہے۔ ایک معجزہ ہے، ایک نعمت ہے۔

پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “تم میں سے کسی کو اللہ نے قرآن کی نعمت عطا کی اس کے  باوجود اس کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ اس سے بڑھ کر کسی کو کوئی نعمت عطا کی گئی ہے تو اس نے قرآن کی قدر و منزلت کو نہیں پہچانا۔”

قرآن انسان کو بدلنے کی تاثیر رکھتا ہے۔ یہ مردہ دلوں کو زندگی بخشنے والی کتاب ہے کیونکہ یہ اس رب کا کلام ہے جس نے ہمیں پیدا کیا۔ وہ ہمارے مسائل کو ہم سے بہتر جانتا ہے۔ اور ہمارے تمام مسائل کا حل اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب کے ذریعے ہم تک پہنچایا ہے۔

ربّی قرآن کریم میں فرماتے ہیں:کیا وہی نہ جانے گا جس نے پیدا کیا ہے؟ حالانکہ وہ باریک بین اور باخبر ہے۔ (سورۃ الملک : 14)

اس پُر فتن دور میں جب ہر طرف ظلمتوں (اندھیروں) کا راج ہے اگر کسی کو نور کی تلاش ہے تو اس کو چاہیے کہ قرآن کو مضبوطی سے تھام لے۔

سورۃ البقرۃ

قرآن سینوں کے امراض کو کھول کھول کر بیان کرتا ہے پھر ان امراض کی دوا بتاتا ہے۔ اکثر قرآن پڑھتے آپ محسوس کریں گے کہ یہ آپ کا اپنا عکس ہے جو قرآن آپ کو دکھا رہا ہے۔ جس انداز میں اللہ تعالیٰ قرآن میں مختلف لوگوں کی مثالیں بیان کرتے ہیں انکے دل کی کیفیات کا پردہ چاک کرتے ہیں یوں محسوس ہوتا ہے جیسے قرآن ایک آئینہ ہے جو ہمیں ہمارے باطن کا عکس دکھا رہا ہے۔ کسی بھی مرض کے علاج سے پہلے بیماری کی تشخیص ضروری ہے جسے ہم diagnosis کہتے ہیں۔ Diagnosis کے اس مرحلے سے گزرنا تھوڑا تکلیف دہ ہوتا ہے لیکن جب تک مرض کا ادراک نہ ہو اس کا علاج ممکن نہیں۔ پھر قرآن ہمیں اس مرض کی دوا بتاتا ہے۔ یہ ایک صبر آزما کام ہے اسکے لئے مستقل مزاجی درکار ہے۔ علاج کے اس عمل کے دوران ضروری ہے کہ ہمارا قرآن کے ساتھ ایک مضبوط تعلق ہو۔ یہاں ہمیں شفایاب ہونے کی لگن اور مضبوط قوتِ ارادی (strong will power) درکار ہوتی ہے۔ اب ہمیں قرآن کو اپنے معمولات میں شامل کرنا ہے۔ روزانہ چند آیات پڑھ کر ان کی روشنی میں اپنا جائزہ لیں اور ان سے اپنے لئے اصول نکالیں۔ ہمارا اصل ہدف قرآن ختم کرنا نہیں بلکہ اس میں موجود ہدایت اور رحمت کے موتی سمیٹنا ہے پھر اس میں کتنا ہی وقت کیوں نہ لگ جائے۔ دوا کی پوری بوتل ایک ساتھ پی لینا کوئی عقلمندی  کا کام نہیں ہے۔قرآن میں ہم جتنی باتیں پڑھیں ضروری نہیں ہے کہ سب یاد رہیں یا ہم ہر بات پر عمل کر سکیں کیونکہ انسان خطا اور نسیان کا مرکب ہے اس لئے اللہ نے قرآن کو الذکر (یاددہانی) کہا ہے۔

 سورۃ الاسراء : 106

اگر مسلسل قطرہ قطرہ پانی کسی پتھر پر بھی گرتا رہے تو پتھر میں بھی سوراخ ہو جاتا ہے۔ قرآن بھی بارش کی طرح ہے جو دل کی بنجر اور مردہ زمین کو زندگی بخشتا ہے۔

 (سورۃ الحدید : 16)

 ( سورۃ الاعراف : 57)

دنیا میں حق اور باطل ،ظلمتیں اور نور ساتھ ساتھ ہیں کیونکہ اللہ نے انہیں ایسے ہی بنایا ہے۔

(سورۃ الشمس: 8)

یہ زندگی بھر کی struggle ہے۔ ہمیں ہر دفع کسی نئی ظلمت کسی نئی آزمائش کا سامنا ہوتا ہے مگر جس نے سیدھے راستے پر رہنے کی جدّوجہد کی اور بار بار  بھٹکنے اور پھسلنے کے باوجود اسی راہ پر پلٹا اور ہر بار اللہ تعالیٰ سے رجوع کیا، تو وہی ہے جو اللہ کے نزدیک محبوب ہے۔ لوگ نتائج دیکھتے ہیں لیکن اللّٰہ تعالیٰ ہماری کوششیں دیکھتے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ انہی لوگوں کو  ہدایت دیتے ہیں جو سچے دل سے ہدایت کے طلب گار ہوتے ہیں اور جنکی طلب انکے عمل سے ظاہر ہوتی ہے۔

 اللہ تعالیٰ قرآن پاک کو ہمارے دلوں کی بہار، ہمارے سینوں کا نور اور ہمارے غموں کا مداوا بنا دیں۔ (آمین)