جذباتی سیاست یا نظریاتی سیاست

پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتحال اس وقت مشکل صورتحال سے دوچار ہے، کرپٹ سیاستدانوں، بیوروکریسی اور اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے عوام میں اشتعال کی کیفیت اور نفرت کی فضا ہے اس کے ساتھ ساتھ ایک بیداری کی کیفیت بھی ہے، مہنگائی بےروزگاری اور فاقہ کشی، زندگی کی بنیادی سہولیات کا فقدان اور عدم فراہمی، غریب عوام کے لیے بجلی گیس کے ہوش ربا بلز، پٹرول کی اونچی قیمتیں اور بیوروکریسی، اسٹیبلشمنٹ اور لاکھوں میں تنخواہ پانے والے دیگر سرکاری اور نیم سرکاری اداروں اور عدلیہ کے اونچے مراتب پر فائز افراد کے لیے مراعات ہی مراعات، اس سب کے نتیجے میں عوام کا پیمانہ صبر لبریز ہو چکا ہے، معاشرے کے غم وغصہ کا یہ اظہار مختلف سیاسی قائدین ماضی میں گاہے بگاہے کرتے رہے ہیں۔

موجودہ صورتحال میں عوامی غیض اور غضب اور اشتعال کے نا واپسی موڑ پر لانے کا سہرا بلاشبہ عمران خان کے سر ہے، مختلف سیاستدان کچھ چھپے اور کچھ کھلے انداز میں کرپشن اور اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے اب بھی کچھ نہ کچھ کہتے رہتے ہیں لیکن اب عمران خان کے بیانیے کے نتیجے میں عام لوگوں کا انداز بہت بدلہ بدلہ سا ہے اور لگتا ہے کہ کچھ ہونے والا ہے، اس فضا کو بنانے میں بڑا رول ہمارے سوشل میڈیا اور ٹی وی چینلز کا ہے۔

کوئی بھی جذباتی رد عمل خواہ کتنا ہی حقیقت سے قریب تر ہو لیکن جس کے پیچھے نہ کوئی فکر کام کر رہی ہو اور نہ نظریہ اور نہ مقصد حیات اور کوئی ایسی جماعت جو عوام میں نچلی سطح تک منظم نہ ہو وہ معاشرے میں کوئی بھی تبدیلی نہیں لا سکتی۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے حوالے سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب غار حرا سے وحی کے نزول کے بعد نیچے تشریف لائے تو انہوں نے ارشاد فرمایا” يَا أَيُّهَا النَّاسُ قُولُوا لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ تُفْلِحُوا”،،،،،،اے لوگو “لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ” کہو فلاح پا جاؤ گے اور پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کا ایک جامع پروگرام لوگوں کے سامنے پیش کیا جس نے پورے معاشرے اور پورے نظام کو تبدیل کر کے رکھ دیا۔

آج بھی ضرورت ہے کہ اسلام کی جامعیت اور حقانیت سے لوگوں کو آگاہ کیا جائے اور فکر و نظریے کی بنیاد پر معاشرے میں تبدیلی لانے کی کوشش کی جائے اور یہی واحد راستہ ہے کہ جو فساد اور خون خرابے کے بغیر معاشرے کو تبدیل کر دے اور پورا نظام یکسر تبدیل ہو جائے ورنہ باقی سارے راستے فساد اور خون ریزی کی طرف ہی لے جاتے ہیں اور آپس کی سیاسی چپقلش کو مزید گہرا کرتے ہیں، عوام اور اداروں کے ٹکراؤ کی طرف تو یہ صورتحال شاید لے جائے لیکن بہتری سکون اور خوشحالی کی طرف ہرگز نہیں جا سکتی

عمران خان جو جماعت اسلامی کی سوچ سے اور جماعت اسلامی کے قائد محترم قاضی حسین احمد سے بہت متاثر تھے لیکن باوجود انہوں نے نادیدہ قوتوں کے کہنے سے جماعت اسلامی سے دوری اختیار کرنے کی پالیسی کو ترجیح دی، قاضی حسین احمد کے احتساب اور تبدیلی کے بیانیے کو انہوں نے نہ صرف ہائی جیک کیا بلکہ میڈیا کے بل پر پوری قوت سے استعمال کیا، احتساب اور کرپٹ سیاستدانوں کو انہوں نے اپنی انتخابی مہم کا نقطہ ارتکاز بنایا اور مقتدر اداروں کی معاونت سے اور میڈیا کے بھرپور استعمال سے انہوں نے لوگوں کے اندر کرپٹ سیاست دانوں کے خلاف ایک زبردست فضا تیار کی اور لوگوں نے اپنے غیض و غضب کا اور جذبات کا اظہار پی ٹی آئی کے قومی اور صوبائی اسمبلی کے 2018 کے الیکشن کے نمائندوں کو کامیاب کرا کر دیا۔

جماعت اسلامی کی سیاسی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ اس نے جمہوریت کے لیے جدوجہد کو محض ایک سیاسی مشغلہ کے طور پر نہیں بلکہ ایک نظریاتی لازمی مذہبی فریضے کے طور سے لیا اور اسی طریقے سے آج تک سر انجام دینے کی کوشش کر رہی ہے اور اس کے لیے انہیں اپنے مخالف سیاستدانوں چاہے وہ نظریاتی طور سے مخالف ہوں یا کسی اور لحاظ سے ان کے ساتھ اگر ان کو بیٹھنے کی ضرورت تھی تو ان کے ساتھ انہوں نے اشتراک عمل سے کبھی بھی گریز نہیں کیا، اس کے قائدین ایک طویل عرصے سے جدوجہد کر رہے تھے اور ان کی کوششیں بھی اس حوالے سے جاری تھیں اور خاص بات یہ کہ ان تمام مسائل کے حل کے لیے جن میں پاکستان گھرا ہوا ہے ان کے پاس ایک پروگرام بھی تھا اور اس کی تمام تر تفصیلات ان کے انتخابی منشور میں بھی درج ہے لیکن ہوتا وہی ہے جو منظور خدا ہوتا ہے۔

نو مئی پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک بھونچال کا سبب بنا اور اس کا سبب مقتدر ادارے اور خان صاحب کے درمیان مناصب کے تقرر پر اختلاف تھا، رائے کے اس اختلاف کی وجہ سے دونوں کی راہیں جدا ہو گئیں ، فوج اور پی ٹی آ ئی کے ایک پیج پر بیانیے والے خان صاحب نے اپنے اپ کو مقتدر اداروں کے سائے شفقت سے محروم کرلیا، حالانکہ اسٹیبلشمینٹ اور جمہوری حکومتوں میں یہ چپقلش کوئی نئی بات نہیں تھی، اس سے پہلے جناب نواز شریف کے دور میں ان کے اس وقت کے آرمی چیف جنرل بیگ کے ساتھ کچھ خلیجی ممالک کے حوالے سے اختلافات ہوئے تھے لیکن معاملہ پیچیدہ ہو کر اس وقت کے صدر کی وجہ سے زیادہ آگے نہیں بڑھ پایا تھا اور معاملہ رفع دفع ہو گیا تھا، اس وقت ان وجوہات کا جائزہ لینے کا موقع نہیں کہ پھر کس طریقے سے یہ معاملات ان کے اگے بڑھے لیکن اس حقیقت کو سامنے رکھتے ہوئے کہ سیاسی جماعتیں پاکستان میں از خود اپنی طاقت اور قوت کی بنیاد پر نہ اقتدار میں آتی ہیں اور نہ اقتدار کے ایوانوں سے انہیں سیاسی بنیادوں کی وجہ سے بے دخل کیا جاتا ہے اسی کے نتیجے میں نو مئی کا واقعہ وقوع پذیر ہو گیا اور ایک بہت بڑے منظم انداز میں پی ٹی ائی کے اندر دراڑیں ڈالنے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا جو تادم تحریر جاری ہے۔

جماعت اسلامی کبھی بھی اسٹیبلشمنٹ کے اشاروں پر چلنے والی پارٹی نہ تھی اور اس کی حقیقت اس بات میں پنہاں ہے کہ یہاں ون مین شو نہیں ہے بلکہ یہ واحد سیاسی جماعت ہے کہ جس کے فیصلے مشاورت سے ہوتے ہیں اور فرد واحد یہاں کوئی فیصلہ کرنے کا مجاز نہیں ہے جبکہ دیگر سیاسی جماعتوں بشمول پی ٹی آئی فرد واحد کی حیثیت کو ہی فیصلہ ساز سمجھا جاتا ہے، اسٹیبلشمنٹ نے جماعت اسلامی میں دراڑیں ڈالنے کی بہت ساری کوششیں اور کاوشیں ماضی میں بھی کیں اور آج بھی کی جاتی ہیں لیکن الحمدللہ ایسی کوئی بھی کوشش اب تک کامیاب نہیں ہو سکی ہے، آخر وہ کیا اسباب ہیں کہ پی ٹی آئی میں اتنی آسانی سے اور اتنی تیزی سے دراڑیں ڈال دی گئیں گو اس سب کے باوجود پی ٹی آئی کا ووٹ بینک بظاہر متاثر ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا ہے۔

2018 کے الیکشن سے پہلے ہم نے دیکھا کہ جس طرح سے موسمی تبدیلی کی وجہ سے پرندے اپنا آشیانہ تبدیل کرتے ہیں بالکل اسی انداز میں ایک بڑی تعداد میں ہمارے سیاستدانوں نے بھی اپنا ٹھکانہ پی ٹی آئی میں آ کر تبدیل کیا اور ظاہر ہے کہ اس کی آشیر باد اور معاونت اور رہنمائی کا فریضہ اس وقت کی مقتدر قوتیں انجام دے رہی تھیں اور میڈیا اس میں ان کی بھرپور معاونت کر رہا تھا،پی ٹی آئی اسٹیبلشمینٹ کا “گڈ بوائے good boy” بنی ہوئ تھی، اس حوالے سے جناب جہانگیر ترین اور ان جیسے سیاست دانوں کا ایک موثر کردار ہمارے میڈیا کے سامنے بھی تھا، اب اگر وہی لوگ نو مئی کے بعد اپنی سیاسی وابستگیاں تبدیل کر رہے ہیں تو یہ صورت حال حیران کن تو قطعی نہیں ہے لیکن ہماری اخلاقی صورتحال کی بہت اچھی طرح سے غماز بھی ہے اور یہ اس طریقے سے بتکرار ہو رہا ہے کہ اب ہمارے معاشرے میں مفاد پرستانہ سیاسی قلابازیاں کوئی اخلاقی برائی اور گراوٹ معیوب بات نہیں سمجھی جاتی۔

جماعت اسلامی اس معاشرے میں ایک ممتاز مقام رکھتی ہے اور اس کے مخالفین بھی اس کی اخلاقیات، شرافت اور مقصد کے ساتھ اس کے لگن کی تعریف بھی کرتے ہیں اور تسلیم بھی کرتے ہیں، آج تحریک انصاف کے جن ورکرز اور لیڈرز کو مصائب اور مشکلات کا سامنا ہے اور ان کی اکثریت ان معمولی مصائب اور مشکلات کے مقابلے میں اپنے ایمان اور ضمیر کا سودا کر کے دنیاوی لحاظ سے تو انہوں نے ایک نفع کا سودا کیا لیکن اسی کے مقابلے میں جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے لیڈروں کو جب 50 سال پرانے واقعات پر پاکستان اور پاکستانی فوج کا ساتھ دینے کے جرم میں جعلی مقدمات میں مورد الزام ٹھہرا کر جعلی عدالتوں کے ذریعے انہیں پھانسی کے پھندے پر لٹکا دیا گیا، 90 سال کے بیمار اور کمزور لوگوں کو جیلوں میں ٹھونس دیا گیا تو استقامت کی مثال بن گئے، آخر کیوں؟ اگر وہ حسینہ واجد کی حکومت کی دی ہوئی معافی کی سہولت بشرط ناکردہ گناہوں کے اقبال جرم اور معافی نامے پر عمل کرتے جس کے بدلے ان کی جاں بخشی ہو جاتی، لیکن آفرین ہے ان پر کہ استقامت میں ذرہ برابر کمی نہ آئ اور یہ لالچ کے ہتھکنڈے ان کی ایمانی کیفیت کا مقابلہ نہ کرسکے، بعینہ ایسے ہی اقبال جرم یا اپنے ہی لیڈر اور اپنی ہی پارٹی کی مخالفت میں بیانات اور اس کی مذمت، پی ٹی آئی کے لیڈروں اور ورکروں نے آزمائش کے مقابلے میں آسان جانا، جبکہ جماعت اسلامی کے پیرانہ سال جوانوں نے اس کے مقابلے میں ابتلا و آزمائش یہاں تک کے پھانسی کے پھندے کو بھی چومنے پر برضا و رغبت راضی ہو گئے، نہ معافی مانگی اور نہ معافی نامہ لکھ کر دیا، آخر یہ کس بات کا فرق ہے، دراصل یہ فکر و نظر اور مقصد زندگی اور اپنے کمٹمنٹ سے جڑے رہنے کا فرق ہے۔

جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے عبدالقادر ملا شہید کی پھانسی کا سن لیں تو عقل دنگ رہ جاتی ہے کیا آج کے زمانے میں بھی ایسا ہوتا ہے؟ ان کی پھانسی پر عمل درامد ہونے سے پہلے کی روداد سنیے تو ہم جیسے دنیا پرستوں کے رونگٹے کھڑے ہو جائیں، کہتے ہیں۔” مجھے نئے کپڑے فراہم کر دیے گئے ہیں نہانے کا پانی بالٹی میں موجود ہے سپاہی کا آرڈر ہے کہ جلد سے جلد غسل کر لوں کال کوٹھری میں بہت زیادہ آنا جانا لگا ہوا ہے ہر سپاہی جھانک جھانک کر جا رہا ہے کچھ کے چہرے افسردہ اور کچھ چہروں پر خوشی نمایاں ہے ان کا بار بار آنا جانا میری تلاوت میں خلل ڈال رہا ہے میرے سامنے سید مودودی کی تفہیم القران موجود ہے، ترجمہ میرے سامنے ہے”غم نہ کرو افسردہ نہ ہو تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو” سبحان اللہ کتنا اطمینان ہے ان کلمات میں میری پوری زندگی کا حاصل مجھے ان آیات میں مل گیا ہے، زندگی اور موت کے درمیان کتنی سانسیں ہیں یہ رب کے علاوہ کوئی نہیں جانتا مجھے اگر فکر ہے تو اپنی تحریک اور ارکان کی ہے اللہ سے دعا ہے کہ وہ ان سب پر اپنا فضل اور کرم قائم رکھے آمین، اللہ پاکستان کے مسلمانوں اور میرے بنگلہ دیش کے مسلمانوں پر آسانی فرمائے دشمنان اسلام کی سازشوں کو ناکام بنا دے(آمین) عشاء کی تیاری کرنی ہے پھر شاید وقت ملے نہ ملے میری آپ سے گزارش ہے کہ ہم سب نے جس راستے کا انتخاب کیا ہے اس پر ڈٹے رہیں میں دیکھ رہا ہوں کہ یہ راستہ سیدھا جنت کی طرف جاتا ہے اپ کا مسلمان بھائی ـ عبدالقادر ملا”

بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی ہے ایسے موقع پر جب زندگی کا ساتھی اس دنیا سے رخصت ہو رہا ہو تو خاتون خانہ کے لیے کس قدر مشکل لمحہ ہوتا ہے، ایسے موقع پر ان کی اہلیہ کی جانب سے انے والے بیان نے قرون اولیٰ کی مسلم خواتین کی یاد تازہ کر دی فرماتی ہیں، “مجھے فخر ہے کہ میں کسی کافر کی بیوی نہیں جماعت اسلامی کے ایک رکن کی بیوی ہوں اور رکن ہونے کی وجہ سے میں نے ان سے شادی کی اور اُمید کرتی ہوں کہ وہ آخر وقت تک عہد رکنیت نبھائیں گے انہوں نے کہا میں جماعت اسلامی کے کارکنان سے اپیل کرتی ہوں کہ وہ احتجاج میں اپنی جانیں دینے کے بجائے اپنی صلاحیتیں اس ملک میں اسلامی نظام کے لیے وقف کر دیں”۔

یہ ایمانی کیفیت صرف ایک واقعے پر بس نہیں ہے، کئ واقعات ہیں، موقع کی مناسبت سے ایک واقعہ اور، امیر جماعت اسلامی بنگلہ دیش مطیع الرحمن نظامی شہید کے پھانسی سے قبل ایسے ہی ایمان افروز لیکن ہمارے لیے ناقابل یقین ایمانی جذبہ کے مظاہر کسی کے پاس سے شاید چھو کر بھی نہ گزرے ہوں ، جماعت کے ہزاروں کارکنان سے جیلوں کا بھرنا ہو یا تشدد سے ان کی شہادتیں، یہ قرون اولی کے واقعات نہیں بلکہ یہ تو گزشتہ عشرہ ہی کی بات ہے، جس کسی کو یقین نہ ہو تو وہ ابتدا سے انتہا تک اور اسمعٰیل علیہ السلام سے امام حسین تک تاریخ اٹھا کر دیکھ لے۔

مقام فیض کوئی راہ میں جچا ہی نہیں

جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے

بنگلہ دیش میں امیر جماعت اسلامی نظامی صاحب کو پھانسی سے پہلے ان سے ایک مجسٹریٹ نے ملاقات کی اور کہا کہ آپ صدر سے رحم کی درخواست کرنا چاہیں تو آپ کے لیے اس کا موقع ہے انہوں نے کہا میں اللہ سے رحم کا طلبگار ہوں کسی مخلوق کے سامنے نہ کبھی جھکا اور نہ اس کا تصور کر سکتا ہوں پھانسی کی سزا سے پہلے ان کی اہلیہ نے ان سے ملاقات کی تو انہوں نے اپنی اہلیہ سے کہا ! “میری شہادت مجھے نظر آرہی ہے اور یہ اللہ کی طرف سے بہت بڑا اعزاز ہے جو اپنے کسی بندے کو عطا کرتا ہے میری شہادت پر کسی کو رونے دھونے کی ضرورت نہیں، میں صبر کی سب کو تلقین کرتا ہوں اور پھر فرمایا میرا دل مطمئن ہے اور میں اپنے چاہنے والوں کو یہ پیغام دیتا ہوں کہ وہ اپنی جدوجہد جاری رکھیں” ہمیں معافیاں مانگنے والوں، اقبالی بیان جاری کرنے والوں کا کردار اور جیل میں سختیاں برداشت کرنے والے اور پھانسی کا پھندا چومنے والوں کے کردار میں واضح فرق نظر آتا ہے، آخر یہ کس چیز کا فرق ہے دراصل یہ فکرو نظر اور مقصد زندگی اور اپنے کمٹمینٹ سے جڑے رہنے کا فرق ہے، وقتی، مفاد پرست اور جذباتی سیاست اور فکری، نظریاتی، کمٹمنٹ سے جڑی سیاست کا واضح فرق نظر آتا ہے، فکری اور نظریاتی سیاست اور اپنے مقصد سے کمٹمنٹ کی مثال بانئ جماعت اسلامی پاکستان سید مودودی کی زندگی سے بھی ملتی ہے۔

مئی 1953 کو مولانا مودودی کو فوجی عدالت نے قادیانی مسئلہ لکھنے کے جرم میں سزائے موت(جو بعد میں عوامی اور عالمی دباؤ کے سبب عمر قید با مشقت میں تبدیل ہو گئی) سنائی اور کہا گیا آپ چاہیں تو سات دن کے اندر کمانڈر ان چیف جنرل محمد ایوب خان سے رحم کی اپیل کر سکتے، مولانا مودودی نے ایک لمحے کے توقف کے بغیر کہا” مجھے کسی سے کوئی اپیل نہیں کرنی ہے” انہوں نے اپنے اہل خانہ کو بھی سختی سے ممانعت کردی کہ ان کی طرف سے کوئی معافی نامہ نہ لکھے اور انہوں نے کہا کہ ‘جو رات قبر میں گزرنی ہے اس کو کوئی نہیں ٹال سکتا۔

1963 میں لاہور میں جماعت اسلامی کے جلسے میں سرکاری سرپرستی میں غنڈوں نے گولیاں چلائیں جماعت کے کارکن اللہ بخش کو شہید کیا گیا ،مولانا مودودی اسٹیج پر کھڑے تھے تو مولانا سے کہا گیا کہ وہ بیٹھ جائیں لیکن انہوں نے اس وقت ایک تاریخی جملہ ادا کیا اور فرمایا کہ” اگر میں بیٹھ گیا تو کھڑا کون رہے گا ” اس موقع کے حوالے سے محترم ماہر القادری نے چند اشعار کہے تھے

حق سے جو وعدہ کیا تھا وہ وفا ہوتا رہا

گولیاں چلتی رہیں اور فرض ادا ہوتا رہا

فرض ہے جن کی حفاظت امن اور قانون کی

ان کے سائے میں یہ سب کچھ برملا ہوتا رہا

ایک طرف وہ لوگ ہیں جو اپنے نظریے کے لیے اپنی جان تک کی پرواہ نہیں کرتے اور دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو کسی بھی نظریہ سے محروم اور وقتی اور دنیاوی فائدوں کے لیے کسی بھی نئے آشیانے کی تلاش میں رہتے ہیں بلکہ کسی بھی حد سے گرنے کو تیار رہتےہیں۔

پاکستان کی ریاست اور سیاست جس کینسر کا شکار ہے اس جاں لیوا مرض سے نجات کے لیے بہت صبر و تحمل کی اور دانشمندی کی ضرورت ہے، تحریک انصاف اپنے کارکنان اور قائدین کی فکری اور نظریاتی تربیت شروع کر دے کہ جس کے نتیجے میں ان کا اپنے مقصد سے اور کمٹمنٹ کے ساتھ لگاؤ بھی ہو اور جس کے نتیجے میں وہ معاشرہ میں ایک فکری اور نظریاتی سیاست کو فروغ دے سکیں اور نظریہ کی خاطرکسی بھی قربانی سے دریغ نہ کرنے والے کارکنان کی ایک کھیپ اور ایسے ہی قائدین کی قابل ذکر تعداد تیار کر دیں اور ساتھ ہی اپنی پارٹی کو نچلی سطح پر عوام تک گلی محلوں کی سطح پر اس کو منظم کریں، ورنہ پاکستان جہاں اس کو بنے 75 سال ہو چکے ہیں اس طرح اور ماہ و سال بیت جائیں گے اور عوام کو یا تو ماضی کی طرح تبدیلی کا خواب دکھایا جائے گا یا وہ خواب دیکھ رہے ہوں گے۔

امیر جماعت اسلامی پاکستان جناب سراج الحق اوران کی ٹیم اپنے صاف ستھرے اور اُجلے کردار کے ساتھ اپنے آپ کو پیش کر رہے ہیں وہ اس وقت دبے ہوئے اور حالات کے ستاۓ ہوئے عوام کی واحد توانا آواز ہیں اور ہر طبقہ فکر کے ایک ایسے نمائندے ہیں کہ جو اس وقت پورے پاکستان میں نہ صرف متحرک ہیں بلکہ استحصالی طبقہ کو برسر عام للکار رہے ہیں، جماعت اسلامی اس لحاظ سے بھی منفرد ہے کہ وقتی سیاسی تقاضوں کے متوازی اصلاح معاشرہ کے اور خدمت خلق کے کام کو ساتھ ساتھ لے کر چل رہی ہے، لوگوں کے اذھان کے بدلنے کے نتیجے میں ہی معاشرہ میں ایک دیرپا اور مثبت تبدیلی کی توقع کی جاسکتی ہے، یہ نظام کی تبدیلی کس طرح ایک فلاحی اسلامی ریاست میں ڈھالی جا سکتی ہے اس کا پورا اور مکمل طریقہ کار پاکستان کے حالات کو سامنے رکھتے ہوئے اور عالمی صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے جماعت اسلامی کے پاس ایک وسیع و عریض لٹریچر کی صورت میں موجود ہے اب دیکھنے کی بات یہ ہے کہ کس طریقے سے اس پر عمل پیرا ہوا جا سکتا ہے۔

ظلم کے اس نظام کی تبدیلی اور عوامی فلاح اور خوشحالی انہی عوامل پر نظر آتی ہے جو فکری اور نظریاتی ہوں، محض جذباتی سیاست خواب تو دکھا سکتی ہے ان خوابوں کو تعبیر نہیں دے سکتی، حصول پاکستان کی جدوجہد ایک نظریہ کی سیاست تھی اپنے دین پر عمل پیرا ہونے کی سیاست، ہندوؤں اور انگریزوں کے مظالم سے آزاد ہونے کی سیاست جس کے لیے ایک قطعہ زمین حاصل کیا گیا، آج پاکستان کی سلامتی اور ترقی محض جذباتی سیاست سے نہیں بلکہ اسلامی فکر اور نظریاتی سیاست سے ہی ممکن ہے۔