قرآن روح کی جان 

ہر کتاب کاکوئی نہ کوئی مصنف ہوتا ہے۔آپ کوئی بھی کتاب اٹھالیں اس کا مصنف یاتو زندہ ہے یا دنیا سے رخصت ہو چکا ہے۔ لیکن قرآن ایک ایسی کتاب ہے جس کو کھولتے ہی آپ کا رابطہ اللہ کے ساتھ قائم ہوجاتاہے۔ اللہ سبحان وتعالی خود فرماتا ہے،،،،،،*وَ اِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیۡ عَنِّیۡ فَاِنِّیۡ قَرِیۡبٌ*(سورہ آل عمران آیت 186)( اور اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم، میرے بندے اگر تم سے میرے متعلق پوچھیں، تو انھیں بتا دو کہ میں ان سے قریب ہی ہوں ) قرآن روح کی جان ہے جس طرح جسم کو زندہ رکھنے کے لیے کھانے پینے کی حاجت ہے اسی طرح روح کو زندہ رکھنا بھی بے حد ضروری ہے۔

انسانی جسم کو مٹی سے پیدا کیا گیا اس لیے اس کا رزق بھی زمین سے نکالا گیا۔ روح آسمان سے بھیجی گی اس لیے اس کی غذا کا بندوبست بھی کلام الہی کی صورت میں آسمان سے کیا گیا۔ قرآن وہ نور ہے جس کے بغیر عقل انسانی اندھی ہے۔ اس کا ایک نام *الفرقان* ہے یعنی حق و باطل میں فرق کرنے والی۔ اس حقیقت کو پیش کرنے والی جس کو قبول کیے بغیر انسانیت کی تعمیر، امن و سلامتی کی دنیا آباد نہیں ہوسکتی اور موت کے بعد شدائید سے انسان نجات نہیں پاسکتا۔

قرآن میں جس دین فطرت کی تعلیم ہے وہ کوئی نیا دین نہیں ہے بلکہ آدم علیہ السلام سے لے کر اب تک تمام انسانوں کے لیے ایک ہی دین فطرت نازل ہوا ہے جس کا نام قرآنی اصطلاح میں “دین اسلام ” ہے اس وقت دنیا میں جو مختلف مذاہب پائے جاتے ہیں۔ وہ دین فطرت “دین اسلام” ہی کی بگڑی ہوئی صورتیں ہیں جن کو لوگوں نے اپنے تفوق وبرتری جتانے کے لیے بنا لیا ہے اور انسانی برادری کو اپنے خود ساختہ ادیان میں بانٹ دیا ہے۔ یہ کتاب اول تا آخر *وحی الٰہی* ہے وہ وحی الہی جس کا تعلق بندوں کی اصلاح سے ہے۔ ہدایت کا وہ سر چشمہ جس کے ذریعے اللہ اپنے بندوں کو تمام قوموں پر سر بلندی دیتا ہے اور اس کو نہ ماننے والوں کا درجہ گھٹا دیتا ہے۔ آج بھی ہم جب جب تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہم سے یہ بات پوشیدہ نہیں رہتی کہ عرب ہی نہیں بلکہ جس قوم نے بھی اس دستور رحمت کو اپنی زندگی کا لائحہ عمل بنایا دوسری قوموں نے ان کے آگے سر جھکایا اور انسانیت کا سبق سیکھا۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہےکہ جس فتح ونصرت کا اللہ نے ہم سے وعدہ کیا اور فرمایا کہ اس قرآن عظیم کے ذریعے تم دنیا پر حکومت کرو گے پھر ہم مسلمان ہی کیوں واضح احکام پہنچنے کے بعد اس میں اختلاف کرنے لگے۔ اورکتاب الہی سے رہنمائی لینے کی بجائے اس کی تعظیم میں اس حد تک بڑھ گئے کہ اس کوآنکھوں سے لگانے، غلاف میں لپیٹنے، بغیر سمجھے پڑھنےاور ایصال ثواب پر ہی اکتفا کربیٹھےحالانکہ قرآن پر ایمان لانے کا مطلب تو یہ ہے کہ اس کی تلاوت غوروفکر کے ساتھ کی جائے۔ اس سے نصیحت حاصل کر کے بگڑی ہوئی ذہنیتوں کو درست کیا جائے۔ لیکن ہمیں تو کوئی پرواہ نہیں کہ ہمارے ملک میں کوئی بھی غلط قانون پاس کردیا جائے۔ ظلم ہو اور انصاف نہ ملے۔ رشوت چلے حقدار کو اس کا حق نہ ملے۔ اخلاق پست ہو جائیں یا ہمارے معاشرے میں کوئی بھی برائی جنم لے، ہماری جدوجہد تو بس خود کو سنوارنے اور اپنی ڈیڑھ انچ کی مسجد بنانے تک ہی محدود ہو کر رہ گئ ہے۔ *باطل کے اقتدار میں تقوی کی آرزو کتنا حسیں فریب ہے جو کھا رہے ہیں ہم* قرآن پر ایمان لانے کا صحیح مطلب نہ سمجھنے کا یہی نتیجہ ہے کہ ہم عملا اتباع قرآن جیسی اللہ کی نعمت سے بڑی حد تک محروم ہیں۔ ہم صرف اپنے حامل قرآن ہونے پر اکتفا کیے ہوئے ہیں۔

قرآن کو پڑھنے پڑھانے کا تو شوق ہے لیکن اس پر عمل کرنے اور دوسروں تک پہنچانے کا شوق ہے نہ دلچسپی۔ یہ ہی بے توجہی اور روگردانی ہماری عام گمراہی کا سبب ہے۔ افسوس ہوتا ہے اُمت کا ایک پڑھا لکھا طبقہ بھی روایات کی گھاٹیوں میں ایسا گرا ہے کہ بزرگوں کے کشف و کرامات سے ہٹ کر قرآن کو سمجھنا گناہ عظیم سمجھتا۔ جبکہ ہمارا دین اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ مسلمانوں پر کافروں کا تسلط ہو چونکہ اس غلامی اور تسلط کو علم کے بغیر دور نہیں کیا جاسکتا۔علم ہی سے شخصیت میں پختگی آئے گی، قناعت پسندی اور شکر گزاری جیسے اوصاف پیدا ہوں گے، خیالات بلند ہوں گے، اور ہمارے دنیا میں آنے کا مقصد پورا ہوگا۔ اپنی خامیوں اور کمزوریوں کو ہر وقت نظر میں رکھ کر قرآن وسنت کی روشنی میں ان کی اصلاح کریں۔کیونکہ زندہ قوم اپنی تقدیر کے فیصلے اپنے عزم کے ہاتھوں لکھتی ہے۔ وہ امکانات اور وسائل کے انتظار میں ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھنا گوارا نہیں کرتی۔ بلکہ مشکلات سے آسانیوں کو فراہم کرنے کی کوشش کرتی ہے وہ حالات کے بدلنے کا انتظار نہیں کرتی بلکہ حالات کا رخ پلٹ دیتی ہے۔ اندھیروں سے ڈر کر اپنا سفر موقوف نہیں کرتی بلکہ احکام الٰہی کے چراغ اندھیرے راستوں پر جلاتی ہوئی چلی جاتی ہے۔۔

تقدیر کے پابند نباتات و جمادات

مومن فقط احکام الٰہی کا ہے پابند