اب نہ جاگے تو پچھتاؤ گے‎

یوں تو ہر چیز میں ردوبدل جائز ہے اور فائدے مند بھی ثابت ہوتا ہے آپ دنیا کے ہر شعبے میں تبدیلی کریں ترقی کرنے کے لیۓ نۓ نۓ علم سیکھیں ملک کا نام روشن کریں ترقی کی دوڑ میں خود کو منوانے کا ہنر پیدا کریں مگر یہ کیا کہ آپ ترقی کرنے کے چکر میں اپنی پہچان ہی کھو دیں اندھوں کی طرح دیواروں سے ٹکرا ٹکرا کر مر جاٸیں اور کہیں کہ یہ ہی فیشن ہے یا آج کل تو اس کی ضرورت ہے۔ ہم ایک مکمل مذہب کے مالک ہیں ایک اسلام کے ماننے والے ایک نبی ﷺ کے امتی ہیں ہم اپنے دین کےمعمالے میں کوٸ سمجھوتہ نہیں کرسکتے اب چاہے دنیا چاند پر جاۓ یا جان سے ہم آپ ﷺ کے عمل کی مخالفت نہیں کریں گے۔

جی ہاں! حالیہ دور میں ہر روز ایک فتنہ سننے اور دیکھنے کو مل رہا ہے غیر مسلم اسلام نفرت میں کبھی آپ ﷺ کی شان میں گستاخی کرتے ہیں کبھی قرآن جلاتے ہیں تو کبھی زندہ مسلمان ہر طرح سے ایمان کمزور کرنے اور اسلام کو مٹانا چاہتے ہیں مگر وہ نہیں جانتے کے اسلام میں اتنی لچک ہے کہ اسے جتنا دبایا جاۓ گا یہ اتنا ہی ابھرے گا۔

یہ تو بات غیروں کی تھی مگر یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے حکمران اعلیٰ کو کیا ہوا جو ہر روز مغربی قانون نافظ کرنے کی کوشش کرتے ہیں کبھی ٹرانسجینڈر تو کبھی ہولی اور اب نٸ نسل پر ایک اور وار تمام تعلیمی اداروں میں موسیقی کی باقاٸدہ کلاسس ہوں گی بچوں کو ناچ گانا سیکھایا جاۓ گا حد ہے جو بنادی حق ہیں ان سے تو طالب علم محروم ہیں اور یہ حرام کام سیکھانے کے لیۓ اتنا خرچہ کیوں؟ جناب ہم آخری نبی ﷺ کے امتی ہیں اور ہم یہ گوارہ نہیں کرتے کے ہمارے نبیﷺ جسں عمل کو ناپسند کریں اور ہم وہی نصاب میں شامل کردیں۔ افسوس ہوتا ہے کہ بار بار حکمران اعلی کو یاد کرانا پڑتا ہے کہ آپ مسلمان ہیں۔

حدیث میں آتا ہے: “عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے بانسری کی آواز سنی تو اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں اور بانسری کی آواز سے دور ہو گئے. جب ان کے غلام  نافع نے بتایا کہ آواز آنا بند ہو چکی ہے تو کانوں سے انگلیاں نکالیں اور فرمایا کہ میں نے نبی کریم ﷺ كو ایسے ہی کرتے دیکھا. (حديث صحيح، صحيح أبي داوود 4116)” کیا آپ نے کبھی سنا کہ پڑوسی ملک نے گائے زبح کر کے پاکستان سے محبت کا ثبوت دیا۔ یا غیر مسلموں نے اپنے نصاب میں قرآن پاک کی تعلیم شامل کر کے دنیا کو متاثر کردیا یاپھر عیدالضحی کے موقع پر پوری دنیا میں تمام مذاہب سے تعلق رکھنے والے افرد نے نماز عید ادا کی۔ نہیں ہر گز نہیں تو پھر ہم ایسے غیر اخلاقی اور غیر اسلامی عمل کیوں کرتے ہیں ایسے قانون کیوں نافظ کرتے ہیں؟

“آپ ﷺ نے فرمایا: مجھے دو احمق اور بدکار آوازوں سے منع کیا گیا ہے، خوشی کے وقت گانے بجانے کا شیطانی نغمہ، اور کسی مصیبت پر آہ وبکا کرنا، چہرہ نوچنا اور گریباں چاک کرنا. (اسے ترمذي اور الألباني نے حسن قرار دیا ہے. صحيح الجامع 5194)”

اس حدیث کو سننے کے بعد کوٸی گنجاٸش نہیں بنتی مگر جو مسلمان اس طرح کے قانون کی حمایت کرتے ہیں تو ان سے سوال ہے؟

أَسْتَغْفِرُ اللہ کیا ہمارا دین مکمل نہیں ہے؟ یا ہم حجة الودع کے اس اہم خطبہ سے انکار کر رہے ہیں جس میں آپ ﷺ نے فرمایا: آج تمھارا دین مکمل ہوگیا ہے۔ اور الحَمدللہ دل گواہی دیتا ہے کہ یہ حق بات ہے ہمیں اب کسی نئی تعلیم اور کسی نۓ قانون کی ضرورت نہیں اس ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان پر اور  ان شاء اللہ پوری دنیا پر صرف ایک اللہ کا قانون چلے گا اور ہم ایسے اسلام مخالف قانون کو دیوار پر دے ماریں گے۔