غلامی کاتازہ پھندا

گزشتہ دنوں لاہور میں وزیر خزانہ اسحاق ڈاراور دیگر کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ،،” قوم دعا کرے کہ یہ آخری دفعہ ہو کہ پاکستان قرضہ لے رہا ہو اور اس کے بعد خدا کرے کہ ہمیں آئی ایم ایف کے پاس نہ جانا پڑے”.

میں سوچ رہی تھی ہمارے حکمران بلا مبالغہ قوم کو بھیڑ بکریاں ہی سمجھتے ہیں۔ اس میں قصور بہرحال قوم کا بھی ہےجب قوم مصائب پہ مصائب جھیلنے کے باوجود جھولیاں بھر بھر کر ووٹ انہی کو دے گی تو ان حکمرانوں کا دماغ خراب ہے جو خود کو مشقت میں ڈالیں آپ کی فلاح کی خاطر۔

تو بات ہو رہی تھی وزیراعظم کے دعا والے پیغام کی۔

وزیراعظم صاحب ! خاکسار کا تعلق بھیڑ بکری کے خاندان سے نہیں بلکہ آدم و حوا کی اولادسے ہے اور اولادِ آدم کو عقل و شعور سے نوازا گیا۔ ہمارا یہ شعور ہی ہمیں آپکی خدمت میں یہ عرض کرنے پر مجبور کر رہا ہے کہ ،،، دعا اس سے کی جاتی ہے جسے اپنا مشکل کشا مانا جائے جس سے مدد طلب کی جائے جس سے امیدیں لگائی جائیں۔ کون نہیں جانتا آپ مشکل کشا کسے مانتے ہیں آپ کی امیدیں کہاں وابستہ ہیں آئی ایم ایف کے ساتھ اور کہاں۔

تو خدارا !  اتنا سمجھ لیجئے کہ،،،، سر کہیں اور جھکایا جائے اور دعائیں ایک الله سے کی جائیں رازق آئی ایم ایف کو بنالیا جائے اور دعا الله سے کی جائے ۔اس طرز عمل کو بھلا کیا کہتے ہیں؟؟

جی ہاں منافقت۔

1958 (کہ جب پہلا قرض لیا گیا آئی ایم ایف سے) سے لے کر اب تک اسی طرز عمل کو پالیسی بنا رکھاہے حکمرانوں نے ۔ اور پھر یہ کیا آپ کہہ رہے ہیں کہ “خدا کرے یہ آخری بار ہو کہ پاکستان آئی ایم ایف سے قرضہ لے”.

ایک موٹی عقل والا بندہ بھی جانتا ہے کہ آئی ایم ایف سے قرض لینا ایک دلدل میں قدم رکھنے کے مترادف ہے اب تو قوم اس دلدل میں پوری نہ سہی آدھی پونی تو پھنس چکی۔

 ہاں !  مگرآپ کو آپ کے کنبے کو وزیروں مشیروں کو کیا پرواہ کہ قوم پوری کی پوری دھنس چکی یا آدھی پونی۔ آپ کے اثاثہ جات محفوظ ہیں آپ کو حاصل مراعات میں کمی نہیں اضافہ ہی ہوتا ہے قوم دھنسے دلدل میں۔ چاہے ڈوبے سمندر میں ۔ قوم کو بس دعاؤں کا لالی پاپ چوسنے کے لئے دیئے رکھیں آپ۔

تواب ذرا اپنی قوم کو یہاں ہم صرف ان قرضہ جات کے اثرات و نقصانات مختصراً بتائےدیتے ہیں۔

تو میری سادہ لوح قوم ! قرضوں کے بوجھ میں بال بال پھنسی پریشان حال قوم ! آئی ایم ایف کوئی انسانی ہمدردی، انسانی حقوق کی بنیاد پر بنا ادارہ نہیں۔ یہ تو سرمایہ دارانہ نظام کے بڑے شعائر میں سے ایک ہے جس کا مقصد تیسری دنیا کے ممالک کے عوام کا خون چوسنا ہے یہ آئی ایم ایف یونہی قرض نہیں دے دیا کرتا ۔پردے کے پیچھے غیرت و حمیت کے طرح طرح کے سودے ہوتے ہیں تب کہیں جاکر قرض ملتا ہے۔ قرض بھی عوام کی فلاح وبہبود کے لئے نہیں بلکہ

  • حکمرانوں کی عیاشیوں کے لئے
  • اور بین الاقوامی قرضوں کا سود ادا کرنے کے لئے۔

 اب صورتحال یہ ہے کہ

  • آپ کے بچوں کو معلوم ہے کیا کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام کدھر گیا ؟
  • خود آپ کو کتنا علم ہے کہ آپ کی اپنی ملکی صنعتیں بند کیوں پڑی ہیں ؟
  • ہر دوسرے روز آپ سنتے ہو نجکاری نجکاری، یہ سب کیوں ہےبھلا ؟

ملک آپ کا اور اس کے اثاثے غیر ملکیوں کے پاس، اس ظلم کا سبب یہی قرضے تو ہیں

حالیہ معاہدہ جو ہوا ہے آئی ایم ایف کے ساتھ تو عوام پہلے ہی اور بالخصوص نوجوان شدید مایوسی کا شکار پائے گئے ہیں۔ ملک چھوڑ کر باہر بھاگ رہے ہیں۔ اب آئی ایم ایف کی نازبرداریوں کے لئے اس پریشان حال عوام پر مزید بوجھ ڈالا جائے گا

  • مہنگائی کا بوجھ
  • بجلی و گیس کے بلوں میں اضافے کا بوجھ
  • بےروزگاری کا بوجھ

ان حالات میں اگر دعائیں ہی کام آسکتیں وزیراعظم صاحب ! تو آج آپ اور آپ کے اتحادی (جو سندھ کے عوام کے خون کا آخری قطرہ تک نچوڑنے کا عزم لئے مسند اقتدار پر براجمان ہیں) ڈوب چکے ہوتے ۔۔۔ گستاخی معاف ۔۔۔۔ میں نے کتنے ہی بے حال لوگوں کو جھولیاں پھیلا پھیلا کر دعائیں مانگتے دیکھا ہے

” یا الله ان حکمرانوں کو سمندر میں غرق کر ان سے ہمیں نجات دلا “

اب آپ کی نظر میں، بھیڑ چال، اس قوم کو کون سمجھائے کہ اجتماعی جرائم کی تلافی محض دعاؤں سے نہیں ہوا کرتی اس کے لئے تو قوت ایمانی کے ساتھ محنت، مشقت، اپنے وسائل پر بھروسہ کے ساتھ ٹھوس منصوبہ بندی کرنی پڑتی ہے اور جس سے دعا کر رہے ہیں سر بھی اسی کے آگے جھکانا پڑتا ہے۔ مسلمان کے لئے یہی راستہ ہے نجات کا ترقی کا خوشحالی کا۔

باقی سب طفل تسلیاں ہیں لالی پاپس ہیں ڈھکوسلے ہیں اوربس ذہنی غلام باری باری مسنداقتدار تک پہنچ جاتے ہیں۔ اپنے آقاوں کے مطالبات پورے کرنے کے لئے عوام سے روٹی پانی بجلی گیس ہرشے چھینتے چلے جارہے ہیں اور اس قدر بے حس ہیں ڈھیٹ ہیں کہ بلاجھجھک میٹھے میٹھے لالی پاپس عوام کے منہ میں ٹھونسے جارہے ہیں۔

ان حکمرانوں نے معاشی غلامی کا ایک اورپھندا قوم کے گلے میں ڈال دیا۔ شدید حیرت وتعجب ہے کہ میڈیاپرسنز، صحافی، تعلیم یافتہ طبقہ، شوبز، قلمکار وغیرہ وغیرہ کوئی ان سے سوال نہیں کر رہا کہ چند ماہ اس خیرات کے سہارے گزارنے کے بعد سرکار کے ارادے کیاہیں؟۔