شکوہ کریں تو کس سے!

یہ کوئی ایک دن کا قصہ نہیں بلکہ روز کی کہانی ہے ویسے تو اس دیس میں ہماری اور سرکار  کی  ہی کمزوریوں کی وجہ سے بہت سے مسائل  درپیش  ہیں لیکن یہاں میں صرف اور صرف کے الیکٹرک کی کارگزاری کی تھوڑی سی جھلک پیش کروں گی کہ کس طرح عوام اس کا سامنا کر رہیں ہیں جبکہ یہ تو صرف چند گھنٹوں کی جھلک ہے.

احمد ! کھانے میں کیا پکا ہے؟

ریحانہ ! تھوڑا سا گوشت بچا ہے وہ بنالیتی ہوں شکر اس وقت گیس بھی ہے بنا لیتی ہوں

احمد ! تھوڑا سا گوشت بچا ہے،،، کیوں؟

آدھا دن لائٹ نہیں ہوتی؛ فریج ڈیپ فریزر سب بند ہوتے ہیں اگر گوشت رکھتی تو خراب ہوجاتا اس لئے تھوڑا رکھ کر باقی تقسیم کر دیا.

احمد، (قہقہہ لگاتے ہوئے) شکر بجلی غائب ہونے سےاس مرتبہ غريبوں کا بھلا ہو گیا؛

ریحانہ؛ جناب ایک حصہ قربانی کا گوشت رکھنے کی اجازت ہے؛ ویسے یہ تقریباً دو کلو گوشت ہوگا میں اکٹھے بنا لیتی ہوں،،  کیونکہ گیس کا بھی کچھ بھروسہ نہیں،،،

احمد، یہ گوشت تو کچھ کچا ہے،

نعیم، جی امی ویسے تو بڑے مزے کا بنا ہے مگر،،،

ریحانہ، شکر کرو اتنا بھی پک گیا تھا کہ گیس چلی گئی؛ ابھی سب کھانا کھا ہی رہے تھے کہ روبارہ لائٹ چلی گئی.

سیرت؛ اوہو. اتنی  گرمی میں  اس لائٹ کو بھی اسی وقت جانا تھا. ابھی تو ہم نے کھانا بھی نہیں کھایا تھا.

ریحانہ، بیٹا نعیم تم جنریٹر چلا لو ویسے ہی گرمی کی وجہ سے تمہارے ابو کا بی پی ہائی ہو جاتا ہے اورپھر،،،

ریحانہ، کیا ہوا؟

نعیم، امی گیس چلی گئی اس لئے جنریٹر بند ہوگیا نہیں چل رہا ہے.

احمد اور ریحانہ (اکٹھے چیخ پڑے) ساڑھے دس بج گئے ہیں اب گیس بھی،

سیرت، امی اب کیا ہوگا اتنا حبس ہے؛ گرمی میں تو کھانا بھی نہیں کھایا گیا،

ریحانہ، سیرت بیٹا یہ سالن فریج میں رکھ دو کل اسے دوبارہ پکاؤں گی،

سیرت، امی فریج میں تو کولنگ ہے ہی نہیں تقریباً آدھے دن سے زیادہ تو لائٹ نہیں تھی یہ سالن تو خراب ہوجائے گا نہ جانے کتنے گھنٹے لائٹ نہ آئے.

پیچھے سے احمد کے چیخنے کی آواز آرہی تھی کسی نے میرا موبائل بھی چارج نہیں کیا بندہ آخر کرے تو کرے کیا.

اب لائٹ بھی چلی گئی ہے؛ اور تم لوگوں کو ہوش نہیں تھا کہ پیٹرول ہی زیادہ لاتے تو اسی پر چند گھنٹے جنریٹر چل جاتا.

ریحانہ، لو اب یک نہ شد دو شد؛ تمہارے ابو کا بی پی شوٹ آپ ہوگیا.اب گرمی، اندھیرا اور تمہارے ابو،،،

اس طرح رات کے تین بج گئے کسی کو نیند نہ آئی جب ساڑھے تین بجے لائٹ آئی سب کی نیند غائب ہو چکی تھی.

اس روداد کو سنانے کا مطلب صرف انجوائے کر نا نہیں بلکہ ان مسائل سے پیدا ہونے والی صرف کچھ چھوٹی سی تکلیف کو بیان کیا گیا ہے .جبکہ ابھی بڑی بڑی مشکلات اور تکالیف نہ جانے کتنی اذیت ناک ہوتی ہونگی اس وقت عوام کی یہی التجا ہے کہ .  مسائل کو حل کرنے کی کوشش میں ہر ذمہ دار محکمہ کو اپنا کردار ادا کرنا انتہائی ضروری امر ہے؛ کیوں کہ مذکورہ بالا صورت حال کی وجہ سے دن بدن نفسیاتی امراض اور ڈپریشن میں اضافہ ہوتا جارہا ہے لیکن؛ شکوہ کریں تو کس سے؟ مثل مشہور ہے کہ بیل کے آگے بین بجانا بیکار ہے