گستاخی قرآن کی جرأت

 ہم سب ایک تکلیف دہ واقعے سے آگاہ  ہیں جس پہ ایک ناپاک شخص نے سویڈن میں عید الاضحی کے پہلے دن جو کہ مسلمانوں کے لیے انتہائی معتبر ہوتا ہے اس میں مسجد کے سامنے حکومتی سرپرستی میں قرآن کریم کو نظر آتش کر کے اپنی اور اپنے معاشرے کی کمتر اور متعصب سوچ کا اظہار کیا اب ان کم عقلوں کو کون سمجھائے کہ یہ کتاب محفوظ ہے اور قیامت تک ہی محفوظ رہے گی. امریکہ میں بائبل اور قرآن میں سے کون سی الہامی کتاب ہے کہ موضوع پر ایک مناظرہ ہوا جس میں پہلے عیسائی مقرر نے بے شمار دلائل دیے ۔ گھنٹے بھر تقریر کی، اس کے بعد مسلمان مقرر اپنے ہاتھ میں ایک کتاب لیے اسٹیج پر آئے اور ان کے معاون کے پاس کافی تعداد میں کتابیں تھی جو لا کر سامنے میز پر رکھ دی۔ مسلمان مقرر نے تمام لوگوں کو مخاطب کر کے کہا کہ میں آپ سے صرف ایک بات کہنا چاہتا ہوں اور فیصلہ پھر اپ کو چھوڑتا ہوں انہوں نے اپنی کتاب جو ان کے ہاتھ میں تھی لہرا کر کہا کہ یہ قرآن ہے یہ دنیا میں ہر جگہ ایک جیسا ہے اس میں زیر زبر کا بھی کوئی فرق نہیں اور یہ تمام کتابیں جو آپ کے سامنے میز پر رکھی ہیں یہ بائبل کے مستند نسخے ہیں اب میں آپ پر فیصلہ چھوڑتا ہوں کہ قرآن  اپنی حقیقی شکل میں قائم ہے یا کہ بائبل۔

 لیکن میں اپنے قارئین سے یہ سوال کرنا چاہتا ہوں کہ جس کتاب کی حفاظت کا ذمہ اللہ تعالی نے لیا اور جو دنیا کے ہر حصے میں بغیر کسی معمولی تبدیلی کے موجود ہے اس میں کوئی  رد و بدل نہیں ہے اس کو آخر کار جلانے کی سویڈن جیسی بزدل قوم میں کیسے پیدا ہوئی میں اپنے قارئین سے یہ سوال کرنا چاہتا ہوں کہ کیا صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ کے دور میں کوئی ایسی جرأت کر سکتا تھا، محمد بن قاسم کے ہوتے ہوئے کوئی قران کو نظر آتش کرنے کا سوچ بھی سکتا تھا،  اب آپ کہیں گے جی جی ہمارے حکمران ہی بزدل ہیں، یہ مفاد پرست ہیں،  ان کو اپنی سیاست کی، اپنی کرسی کی پڑی ہے ان کو برا بھلا کہہ کر اپنی جان چھڑا لیں گے۔

جی نہیں عظیم حکمران بھی عظیم قوموں میں ہی پیدا ہوتے ہیں ایک چبھتا ہوا سوال آپ کے سامنے رکھتا ہوں کہ کیا یہ ہمارا دوہرا معیار نہیں وہ جو قران کو مانتے بھی نہیں اس کو جلا دیں تو گستاخ اور ہم سالوں قرآن کو ہاتھ بھی نہ لگا کر قل،چالیسویں میں بھی مدرسے کے معصوم بچوں سے پڑھوا کر، رمضان میں تراویح کے وقت کرکٹ کھیل کر، اس کی تعلیمات کو سمجھنا تو دور صرف ناظرہ پڑھے بغیر بھی ہم محب قرآن اور محب رسول کہلائیں تو میرا آپ سے اور اپنے آپ سے ایک سوال ہے کہ آخری دفعہ ہم نے قران کب پڑھا تھا، قران کے بنیادی احکامات جو ہم سب کو معلوم ہیں کیونکہ ہم تو پیدائشی مسلمان ہیں جیسے نماز، رزق حلال کمانا، والدین سے حسن سلوک کرنا، صلہ رحمی وغیرہ پر ہمارا کتنا عمل ہے۔

کیا میں یہ کہنے میں حق بجانب نہیں کہ یہ جرأت ہماری بےعملی نے ان کو دی ہے کہ وہ سرعام قرآن کو نظر آتش کریں ستاون اسلامی ممالک کے ہوتے ہوئے معدنی ذخائر سے مالا مال ہونے کے باوجود ایٹمی طاقت ہونے کے ہوتے ہوئے بھی اگر غیر مسلمان جو قرآن اور رسول کی گستاخی کر سکتے ہیں تو پھر یہ ہمارا قصور ہے کہ  ہمارا عمل ان کو بتا ہی نہیں سکا کہ قرآن آخر ہے کیا۔ قرآن ہی دنیا میں امن کا موثر  نظام دے سکتا ہے۔  ہمارے حکمرانوں کو کوسنے کی بجائے ہمیں خود قرآن پہ عمل کر کے قرآن بن جانا چاہیے تاکہ غیر مسلمان اس کی حقیقت کو سمجھ سکیں ذرا نہیں مکمل غور کر کے عمل کیجئے.