حیا عورت کاتحفظ

جاوید ! یہ تمہارے گھر آنے کا وقت ہےتمہیں بچوں کی فکر نہ گھر کی اوریہ تمہارا لباس؟

حانیہ ! شروع ہو گیا تمہارا لیکچر ؛ مجھے تو لگتا نہیں کہ تم لندن سے تعلیم حاصل کرکے آئے ہو، بالکل گنواروں جیسی باتیں کرتے ہو-

جاوید ! ( غصے سے) بس بہت ہوگیا تمہاری یہ بے حیائی؛ غیر مردوں کے ساتھ ناچ گانے کی محفلوں میں شرکت کرنا، یہ سب صحيح نہیں اب ہماری بیٹی بڑی ہورہی ہے بے حیائی کا اثر اس پر پڑے گا

حانیہ ! کیا بے حیائی بے حیائی کی رٹ لگائی ہے آج کل یہی سب چل رہا ہے اسٹیٹس سمبل ہے یہ سب کچھ، میں تو تم جیسے گنواروں میں پھنس گئی ہوں- مجھے تمہارے ساتھ اب مزید نہیں رہنا-

جاوید حانیہ کی بات سن کر حیرانی سے اسے دیکھنے لگا ویسے تو وہ کافی دنوں سے اس کے بدلتے تیور دیکھ رہا تھا؛ اسطرح حانیہ نے جاوید سے طلاق لیکر اپنے ایک ماڈرن عیاش دوست سے شادی کر لی-

منیب سےویسے تو اسکا چار پانچ سالوں سے تعلق تھا وہ اسکے مزاج کا بندہ تھا شادی کے بعد اس کا ساتھ پاکر تو وہ اپنے آپ کو دنیا کی خوش نصیب لڑکی سمجھنے لگی نہ کوئی روک اور نہ ٹوک، اسی لئے اسکا لباس بھی دن بدن مختصر ہوتا گیا- منیب اسے شوپیس کی طرح سجا کر مخلوط محافل میں لے جاتا، وہ ایسی پارٹیوں میں خود بھی غیر عورتوں کے ساتھ ناچتا گاتا،

منیب ! آج اسپیشل پارٹی ہے (آنکھ مارتے ہوئے) میرا باس آج خوش ہوگیا تو سمجھو ! ہم دونوں کے عیش ہوگئے اس لیے خاص تیاری ہونی چاہیے-

ایک بڑی شاندار کوٹھی کے سامنے اس نے گاڑی روک دی، چوکیدار نے گیٹ کھول دیا، لیکن اندر چند نوکروں کے علاوہ کوئی نہ تھا-

منیب ! تم اندر چلو مجھے ایک کام یاد آگیا میں ایک گھنٹے میںآجاؤں گا بس صاحب کا تمہیں خیال رکھنا ہے-

حانیہ کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی وہ اتنی بیوقوف نہیں تھی کہ منیب کی بات کا مطلب نہ سمجھ سکے؛ اسے اپنے شوہر سے یہ توقع نہ تھی، تم مجھے گھر چھوڑ دو مجھے تمہارے صاحب سے نہیں ملنا، حانیہ کے زور سے چیخنے پر وہ اسے گھر تو لے ایا لیکن اسکے چبھتے الفاظوں نے اسے چھلنی کردیا؛ بڑی شریف زادی بنتی ہو تمہاری اوقات مجھ سے زیادہ کون جان سکتا ہے؛کیا تم نے مجھ سے شادی سے پہلے تعلق نہ جوڑا تھا اب پارسہ بن رہی ہو-

اسطرح حانیہ اور منیب کایہ کمزور بندھن ٹوٹ گیا، چھ مہینوں میں اسے بچوں کی کبھی یاد نہ آئی تھی اب اسے اپنی ہر غلطی کا احساس ہو رہا تھا کاش میں بے حیائی کی اس دلدل میں نہ گرتی، آج وہ اپنی نظروں میں خود گر گئی تھی-

امی جاویدسے ! بیٹا کب تک اس عورت کی وجہ سے اپنے آپ کو اور بچوں کو سزا دیتے رہوگے میری ہڈیوں میں اب جان نہیں رہی بچے ماں کے بغیر ضدی اور بدتمیز ہوگئے ہیں کسی کے قابو نہیں آتے-

جاوید ! امی میں نے آپ سے کہا ہے نہ کہ اس موضوع پر مجھ بات مت کیا کریں-

سونیا ! امی آج میں نے ایک خبر سنی ہے،

امی ! خیر؟

سونیا ! حانیہ نے اپنے دوسرے شوہر سے بھی طلاق لے لی، اسکی جو کزن میرے پڑوس میں رہتی ہے اس نے بتایا کہ وہ تو بالکل بدل گئی ہے (پھر جاوید کی بہن سونیا نے امی کو حانیہ کی ساری روداد بتائی)-

سونیا ! امی حانیہ اپنےکیے پر بہت شرمندہ ہے اگر جاوید راضی ہو جائے تو؛ شادی،،،،

امی ! تمہیں پتا ہے وہ اب اس گھر میں حانیہ کا نام بھی سننا پسند نہیں کرتا اور شادی کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا-

سونیا ! ہمیں بچوں کی وجہ سے جاوید کو منانا ہوگا-

سونیا اور امی کی کوششوں سے جاوید شادی کے لئے صرف بچوں کی وجہ سے راضی ہوا وہ بھی اس شرط پر کہ حانیہ مجھ سے کسی قسم کی توقع نہیں رکھے گی؛ حانیہ کو اتنی بڑی زلت کے بعد جاوید کی ہر شرط منظور تھی؛ اب اسے صرف اپنے بچوں کا ساتھ چاہیے تھا اور عزت کی وہ چھت جسے اس نے خود اپنے پیروں تلے روندا تھا اور یہ سب اسکی اس بے حیائی کی وجہ سے ہوا جسے وہ اپنی ماڈرن زندگی کی شان سمجھتی رہی تھی-