گھر میں سکون کیسے؟

بھری محفل میں  ایک  خاتون فرما  رہی تھیں  کہ ساس اور بہو  کا رشتہ  بڑا خطرناک  ہوتا ہے اور دونوں  ایک دوسرے سے  ہمیشہ  نالاں  رہتی ہیں یہ بات کہاں تک درست ہے  یہ تو بندے پر خود منحصر ہے  کہ وہ اس رشتے کو  کس طرح  نبھانے کی  صلاحیت رکھتا ہے جی ہاں ہر شخص کے  اپنے اخلاق  و عادات ہی خوشگوار  تعلقات کو  جنم دیتے ہیں  اور  پروان چڑھاتے ہیں  لیکن یہ بھی  غلط نہیں  کہ تالی دونوں  ہاتھوں سے  بجتی  ہے  ایک  ہاتھ سے نہیں، لیکن  ایک طرف سے  درگزر  خوش  اخلاقی  نرم  خوہی  حالات  کو مزید  بگڑنے  نہیں  دیتے خدانخواستہ  دونوں  کردار  زور دار  تو گھر کا تو اللہ ہی حافظ ہے  جس کی  لپیٹ میں  گھر کا ہر بندہ  ہی اجاتا ہے

خصوصاً وہ بیٹا جو ماں کی سنتا ہے تو بیوی ناراض اور اگر بیوی کی سنے تو زن مرید کہلائے؛ یعنی دونوں صورتوں میں اسکی پتلی کمر کو ہی قصور وار سمجھا جائے گا آخر اس صورت حال کا کیا حل ہوسکتا ہے؟

اس سلسلے میں گھر کے ہر فرد کے کردار و عمل کی بڑی اہمیت ہے؛ افہام و تفہیم کے علاوہ اپنے فرائض و حقوق کا صحیح تعین کرنا ضروری ہے گھر میں آنے والی اپنے سب رشتے چھوڑ کر آپ کے ساتھ جڑی ہے تو اسے اس گھر میں جگہ دیں اسکے بحیثیت بیوی اور بہو کے اسکے حقوق کی پاسداری کرنا گھر کے ہر فرد کی ذمہ داری ہے؛اب آنے والی  پر بھی یہ فرض ہے کہ آتے ہی سب سمیٹنے کے بجائے اپنے فرائض کو ادا کرنے کے ساتھ ساتھ آہستہ آہستہ اپنے لیے اس گھر میں جگہ بنانے؛سسرال میں آتے ہی ساس نندوں کا پتہ کاٹنایا گھر اور گھروالوں سے بیزار رہنا یا گھریلو امور میں دلچسپی نہ لیناوہ باتیں ہیں جن کی بدولت وہ کبھی بھی اس گھر میں اپنا مقام نہیں بنا پائے گی پھر ایک انتہائی ضروری بات یہ ہے کہ  ساس اور بہو دونوں کو ادھر ادھر کے لوگوں کی باتوں پر عمل کرنے کے بجائے افہام و تفہیم سے چھوٹی چھوٹی باتوں کو نظر انداز کرنے میں ہی بہتری ہے  دوسروں کی غلطیوں کے بجائے اپنی غلطیوں کو تلاش کرنا بے حد ضروری امر ہے ہر بات میں دوسروں کو قصور وار سمجھنے سے مسائل میں اضافہ ہی ہوگا جسکی وجہ سے گھریلو زندگی بے حد متاثر ہوتی ہے.

اپنا اپنا محاسبہ کرتے رہنا چاہئے ایک خاتون جو اپنی نئی آنے والی بہو سے نالاں تھی کہنے لگی آپ اپنی تین بہووں کے ساتھ خوشگوار تعلقات رکھتی ہیں مجھے بھی کچھ بتائیں میں کیا کروں؛ میں نے مسکرا کہا کہ میرے اندر بھی بہت سی برائیاں ہونگی جب وہ مجھے برداشت کر رہی ہے تو مجھے بھی اسکی خامیوں سمیت اسے برداشت کرنا چاہیےاور کوشش کرنی چاہیے کہ بندہ اپنا محاسبہ کرتا رہے کہ کہیں میں تو غلط نہیں ہوں اور اگر اپنی غلطی نظر آئے تو ضرور اپنے گھروندے کی خوشحالی اور سکون کے لیے اس غلطی سے چھٹکارا حاصل کرے میری ایک دوست جو بہت زیادہ صفائی پسند ہے کہ ناک پر مکھی بھی نہ بیٹھنے دے لیکن گھر میں بہو کے آنے کے بعد اسنے نہ صرف اپنے اندر برداشت کی عادت پیدا کی ہے بلکہ سمجھوتے کی کوشش بھی کی ہے کہ ہر بندہ اسکی نیچر جیسا نہیں ہوسکتا اور آہستہ آہستہ  مثبت طریقے سے وہ اپنی بہو کی تربیت کر رہی ہے.    اس وجہ سے اس کے گھر میں امن ہے.

رب العزت ایک چھت تلے رہنے والے تمام افراد کو افہام و تفہیم سے اپنے گھروندے کو آباد رکھنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین یا رب العالمین

ا