کاغذ کی کشتی اور میری ہستی

میرا نام مریم بنتِ شعیب ہے میں نے اپنی زندگی میں بہت سے لوگ دیکھے ہیں، بہت سے ایسے تھے جنھوں نے مجھے زندگی کے بڑے بڑے سبق دیے، لیکن میں اُن کو بھولی نہیں ہوں اُن سب کے نام میں نے ذہن نشین کر رکھے ہیں، کیونکہ اُنھوں نے مجھے اعتبار کے بدلے نقصان پہنچایا لیکن اُن سب باتوں نے مجھے وقت سے پہلے بڑا کردیا. آج میری عمر کی تمام لڑکیاں اتنی گہرائی تک نہیں جاسکتیں جتنا میں لوگوں کے ذہن اور چہرہ پڑھ کر اندازہ لگالیتی ہوں، تاہم ماضی میں رونما ہونے والے بہت سے واقعات اکثر ہماری آئندہ زندگی پہ اثر انداز ہوتے ہیں. تاریخ ٢٢ مارچ ١٩٩٩، مریم نے اپنی ڈائری میں اپنی یادداشت کو قلم بند کیا.

اسکول سے آنے کے بعد ایک ورق یا اُس سے کم کچھ نا کچھ لکھنا اُس کا معمول تھا. مریم اپنے ماں باپ کی اکلوتی اولاد تھی اُس نے دوست بہت کم بنائے کیونکہ اُسے بس اللہ پر بھروسہ تھا بچپن سے ہی کلاس میں ہم جماعت لڑکیوں نے بھی اُس کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا شاید اس کی وجہ اُس کی معصومیت تھی.

دروازے پر دستک ہوئی، مریم کی امی عُظمیٰ کچن سے نکل کر دروازے پر گئیں تو دیکھا ریحانہ آئی ہے، السلام علیکم آنٹی، وعلیکم السلام کیا بات ہے ریحانہ پڑوسی ہوتے ہوئے مہینوں اپنی پکی دوست کے پاس نہیں آتیں؟ آجاؤ مریم کمرے میں ہے، جی آنٹی شکریہ آپ کا! مریم مریم کہاں ہو تم، تمہیں ذرا بھی میری یاد نہیں آتی ہمیشہ میں ہی آتی ہوں تم تو آتی ہی نہیں ہو، ریحانہ نے مریم سے اپنی ناراضگی کا اظہار کیا، ارے بھئی اس بات سے کیا فرق پڑتا ہے تم آؤ یا میں؟ مریم نے جواب دیا.ریحانہ ! فرق پڑتا ہے بہت، کیا میرا دل نہیں چاہتا کہ میں تمہاری مہمان نوازی کروں! اچھا ریحانہ کوئی بات نہیں اب اگلے بار میں آجاؤں گی اب تم خوش؟ ہاں میں بہت خوش ہوں ریحانہ نے جواب دیا.

اور سناؤ مریم زندگی میں کیا چل رہا ہے آج کل؟ ارے وہی سب اسکول سے گھر، گھر سے اسکول یعنی کیا مثال ہے کہ مُلا کی دوڑ مسجد تک ! چلو اچھی بات ہے مریم مصروفیت بھی ایک نعمت ہے مجھے دیکھوں ایم بی اے کر کے بھی کوئی مصروفیت نہیں ہے سوچ رہی ہو ایم فل کرلوں یا کوئی اور ڈگری. تمھاری زندگی ہے ریحانہ جو چاہے کرو بس میرا ایک مشورہ ہے اپنے زندگی میں دوسرے کے مشوروں کے سہارے مت چلنا کیونکہ تم خود کو ہم سے بہتر جانتی ہو. ٹھیک ہے باس ریحانہ نے ہنستے ہوئے جواب دیا. اور بتاؤ تم آج کل ڈائری لکھ رہی ہو مریم؟ ہاں میں روز ہی کچھ ناکچھ لکھتی ہوں تم بھی لکھا کرو اس سے انسان کو اپنی ماضی کی غلطیاں اور اچھی چیزوں کا اندازہ ہوتا ہے. نہیں بھئی تم ہی لکھو میں آج کی زندگی میں جینا چاہتی ہوں بس جو ہے وہ سب مجھے قبول ہے.

مریم تم اپنی زندگی سے خوش نہیں ہو؟ ریحانہ نے مریم سے سوال کیا. مریم، میں خوش ہوں بھی اور نہیں بھی. میں خوش اسطرح ہو کہ میں نے جو چاہا مجھے دیر یا سویر مل ہی گیا، ناخوش ہوں تو لوگوں کے رویے سے جنہوں نے مجھے تبدیل کرنا چاہا جس کی وجہ سے میرے اندر سے خوش مزاجی تک ختم ہوگئی. لوگ آپ سے محبت نہیں کرتے وہ صرف مفاد پرست ہوتے ہیں یہ بات میں روز خود کو یاد کراتی ہوں. اور تم سے بھی یہی کہوں گی اپنی ذات کو کبھی کسی اور کی باتوں سے برباد نہیں کرنا اپنے اندر کے بچپن کو ہمیشہ کہیں نا کہیں زندہ رکھنا. وہ جو ہم کاغذ کی کشتی بنایا کرتے تھے اپنے کاپی کا ورق پھاڑ کر اُس کو اپنے اندر سے کبھی ختم نا ہونے دینا کیونکہ وہ بچپن بہت حسین ہوتا ہے. میں نے لوگوں کی باتوں کی وجہ سے اپنا وہ بچپن کہیں کھودیا ہے اور اب گزرا ہوا وقت لوٹ کر آ نہیں سکتا، مگر تم ایسا مت کرنا جو میں نے کیا خود کو فراموش، بس تم مت کرنا اور ہوسکے تو یہ بات دوسروں کو بھی بتاؤ جن سے تم محبت کرتی ہو. تاکہ کچی مٹی کی بھینی خوشبو کبھی بھی کھو نا جائے کہیں. وہ کاغذ کی کشتی کہیں ڈُوب نہ جائے.