سالانہ چھٹیوں میں بچوں کی تربیت

ہمارے ہاں رواج بن گیا ہے کہ صرف ڈھائی سے تین سال کے ننھے سے بچے کو اسکول میں داخل کروا دیا جاتا ہے پھر اس چھوٹے سے بچے کو کئی گھنٹے ماں سے دور رہنا پڑتا ہے۔ اسکول میں داخل ہونے کے بعد وقت کی تقسیم کا ایسا سلسلہ شروع ہوتا ہے کے بچے کو گھر والے کم اور باہر والے زیادہ سکھانے کے لیے میسّر ہوتے ہیں۔ اسکول، ٹیوشن، قاری صاحب سے قرآن پڑھنا اور پھر ان سب کے دیئے ہوئے کام یا سبق یاد کرنا۔ اس کی غیر نصابی سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر ہوتی ہیں جس کی وجہ سے بچے کی صلاحیتیں یا انفرادی خصوصیات دب جاتی ہیں۔ کیونکہ بچے کی انفرادی خصوصیات پر توجہ نہیں دی جاتی اسے صرف رٹو طوطا یا لکیر کا فقیر بنا دیا جاتا ہے۔ اس کی وہ قدرتی صلاحیت جو دبی رہ گئی تھی، موقع کی متلاشی ہوتی ہیں موقع ملنے پر وہ صلاحیتیں یا انفرادی خصوصیات ابھر کر سامنے آتی ہیں۔ اس کے لیے گرمیوں کی چھٹیوں کا وقت بہترین وقت ہوتا ہے۔

بچوں کے شوق ان کی صلاحیتوں اور رجحان کے مطابق انہیں گرمیوں کی طویل چھٹیاں گزارنے کا موقع فراہم کرنا چاہیے۔ اس کے لئے بھی باقاعدہ منصوبہ بندی کی ضرورت ہوتی ہے۔ چھٹیاں ہونے سے ایک مہینہ پہلے ہی سمر کیمپ کے بینرز اور سوشل میڈیا پر اشتہارات نظر آنا شروع ہو جاتے ہیں لیکن ہمیں اپنے گھریلو بجٹ اور بچے کے رجحان کو دیکھتے ہوئے آگے بڑھنا ہے۔

تیراکی،ایک ایسا کھیل یا مشغلہ ہے جو سب بچوں کو پسند ہوتا ہے تیراکی ایک مکمل ورزش ہے جس سے ذہنی صلاحیتوں میں بھی اضافہ ہوتا ہے لیکن یہاں تیراکی کے مواقع کم ہی میسر آتے ہیں اگر کسی کو یہ موقع ملتا ہے تو ضرور فائدہ اٹھانا چاہیے۔

آرٹ،بچوں کا پسندیدہ مشغلہ ہے جس سے بچے کھیل ہی کھیل میں بہت کچھ سیکھتے ہیں جیسے آرٹ اینڈ کرافٹ، پینٹنگ اوری گیمی( کاغذ کی مدد سے چیزیں بنانا)، اسکیچیز (پینسل سے تصویریں بنانا)، مٹی کے برتن بنانا، موقع کی مناسبت سے خوبصورت کارڈ بنانا وغیرہ شامل ہے۔ اپنی سوچ اور فکر کا اظہار لاشعوری طور پر بچے پینٹنگ اور آرٹ میں کرتے ہیں۔

جن بچوں کی آواز اچھی ہوتی ہے انہیں نعتیں پڑھنا سکھانا چاہیے اور قرأت کرنا بھی سکھا سکتے ہیں اس سے وہ دینداری کی طرف بھی مائل ہوں گے۔ خوشخطی اور خطاطی سیکھنا بھی بہت سے بچوں کا شوق ہوتا ہے۔ کچھ بڑی اسپورٹس اکیڈمی ایسی بھی ہیں جہاں چھٹیوں میں نشانہ بازی، کراٹے، گُھڑسواری، کرکٹ اور فٹبال کی تربیت دی جاتی ہے۔

لڑکیوں کے حوالے سے کچھ مختلف سرگرمیاں بھی ہوتی ہیں جیسے کھانا پکانے کی کلاسس، کارونگ، فیشن ڈیزائننگ، (سیلف گرومنگ) اپنی شخصیت میں نکھار پیدا کرنا وغیرہ شامل ہے۔

بڑے بچوں کے لئے آئی ٹی کے کورسز بھی ڈیزائن کیے جاتے ہیں تاکہ وہ عملی زندگی میں قدم رکھنے سے پہلے ہنر مند ہوجائیں ان کورسس سے انہیں معاشی مضبوطی ملتی ہے۔

اگر ہمارا گھریلو بجٹ اجازت دے تو ہم مندرجہ بالا بیان کی ہوئی سرگرمیوں کی طرف جا سکتے ہیں ورنہ اپنی اور گھر کے سربراہ کی زندگی کو کسی امتحان میں نہ ڈالیں بلکہ اپنے گھر میں اپنی استطاعت کے مطابق آپ بہت کچھ کرسکتی ہیں جیسا کہ اپنے بچے کے ساتھ گلی محلے کے بچوں کو اور ان کی ماؤں کو بھی شامل کر لیں۔ آپ اور دوسرے بچوں کی مائیں اپنے بچوں کو جو بھی سکھانا چاہتی تھیں۔ وقت کی کمی کے باعث یا کسی اور وجہ سے نہ سکھا سکیں۔ اپنے بچوں کو وہ سب کچھ سکھا دینے کا اور ان کے ساتھ وقت گزارنے کا یہ بہترین وقت ہے۔

بچہ کوئی بھی سرگرمی کرے کوئی کلاس لینے جائے یا کوئی بھی تربیت حاصل کرے اس کے علاوہ وہ کام جو ہمیں لازماً اسے کروانے چاہئیں، ان میں ایک مہینہ روزانہ قرآن کی ایک آیت ترجمہ کے ساتھ یاد کروائیں اور دوسرے مہینے میں روزانہ ایک حدیث یاد کروائیں اور اس پر عمل بھی کروائیں۔

اپنی چیزوں کو سمیٹنا، گھر کو صاف رکھنا، کھانے کے آداب اور گفتگو کے آداب لازمی سکھائیں۔ بزرگوں سے ملاقات کروائیں اور ان کے چھوٹے موٹے کام کروائیں۔

بچے چھوٹے چھوٹے گملوں میں پودے اگائیں یا گھر کے باہر ایک ڈیڑھ فٹ کی چھوٹی سی کیاری بنائیں اس میں بیچ ڈالیں اور اس کا خیال رکھیں۔

بچے اپنی خودنوشت بھی لکھ سکتے ہیں تاکہ وہ اپنے آپ کو بھی جان سکیں اور ان میں اپنی ذات کا شعور پیدا ہو، اپنی خوبیاں اور خامیوں کا احساس ہو۔ اپنے ساتھ ہونے والے خوشگوار واقعات لکھیں۔ اپنی زندگی کے اہم واقعات لکھیں اس طرح ان میں لکھنے کا شوق بھی پیدا ہوگا اور وہ اپنا تجزیہ و تفکر خود سے کر سکنے کے قابل ہوں گے۔

بچوں کے ساتھ جاکر چھوٹی چھوٹی کتابیں یا کتابچے خریدیں جن میں کہانیاں، معلوماتی تحریریں یا پینٹنگ کی کتابیں ہوں۔ بچے سے گھر کے کسی کونے میں آٹھ دس کتابوں پر مشتمل چھوٹی سی لائبریری بنوادیں۔ یہ ایک کام لازمی کریں، ان چھٹیوں میں اپنے بچوں کی دوستی کتابوں سے کروا دیں۔