پلاسٹک مصنوعات کا متبادل

اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام (یو این ای پی) کے مطابق سالانہ 400 ملین ٹن سے زیادہ پلاسٹک تیار کیا جاتا ہے، جس میں سے 10 فیصد سے بھی کم ری سائیکل کیا جاتا ہے۔ تقریباً 19سے23 ملین ٹن پلاسٹک جھیلوں، دریاؤں اور سمندروں کو آلودہ کرتا ہے، جو 2040 تک تین گنا ہوسکتا ہے. اس طرح کی آلودگی سے 800 سے زائد سمندری اور ساحلی اقسام متاثر ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اقوام متحدہ سمیت تحفظ ماحول سے جڑے ادارے پلاسٹک آلودگی کے خاتمے کی وکالت کرتے ہیں اور متبادل مصنوعات کے استعمال پر زور دیتے ہیں۔

ایک ذمہ دار اور بڑے ملک کی حیثیت سے چین نے حالیہ سالوں میں پلاسٹک آلودگی سے نمٹنے اور ری سائیکلنگ کو بہتر بنانے کی کوششوں کو تیز کر دیا ہے، جس نے ملک کو سبز اور گردشی معیشت میں منتقل کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہ بات قابل زکر ہے کہ چین پلاسٹک فضلے کی ری سائیکلنگ اور پلاسٹک کے دوبارہ استعمال کی صلاحیت اور پیداوار کے لحاظ سے دنیا میں سب سے آگے ہے۔ جون 2022 تک 15 ہزار سے زائد کمپنیاں پلاسٹک فضلے کی ری سائیکلنگ کے عمل میں شامل تھیں، جن میں تقریباً 9 لاکھ افراد کو روزگار ملا ہے۔ 2021 میں چین نے تقریباً 19 ملین ٹن پلاسٹک فضلے کو ری سائیکل کیا اور 31 فیصد ری سائیکلنگ کی شرح حاصل کی۔ یہ شرح اسی عرصے کے دوران عالمی اوسط سے تقریباً 1.74 گنا زیادہ تھی، یوں چین کی ری سائیکلنگ کی صلاحیت دنیا کی مجموعی صلاحیت کا تقریباً 70 فیصد ہے۔

آج چین نئے مواد کے استعمال اور اپنی ری سائیکلنگ صلاحیت کو اپ گریڈ کرکے سنگل یوز پلاسٹک جیسے پانی کی بوتلیں، شاپنگ بیگز اور کٹلری سے دور ہو رہا ہے۔ ملک میں ریٹیل، ای کامرس، ایکسپریس ڈلیوری اور زرعی پیداوار جیسے کلیدی شعبوں میں پلاسٹک کے استعمال کی حوصلہ شکنی جاری ہے۔

چین کےمختلف علاقوں میں ڈسپوزایبل کھانے کے برتنوں میں بانس کا بڑھتا ہوا استعمال نیا رجحان بن چکا ہے۔ مقامی حکومتوں نے پلاسٹک مصنوعات کے متبادل کے طور پر بانس کی پیداوار اور استعمال کی حوصلہ افزائی کے لئے پروگرام شروع کیے ہیں، جس میں مقامی ہوٹلوں میں بانس کے ٹوتھ برش اور کنگھی وغیرہ کی فراہمی بھی شامل ہے۔ بانس کے جنگلات کے بہتر انتظام کی خاطر ذہین ڈیٹا پلیٹ فارم کی تعمیر میں سرمایہ کاری کی جا رہی ہے۔ ایسی ماحول دوست صنعتوں کی بھی مدد کی جا رہی ہے جو روزمرہ کی پلاسٹک کی اشیاء جیسے شاپنگ بیگ کے لئے بانس کے متبادل تیار کر رہے ہیں۔ ڈاک اور ترسیل کے شعبے کو بھی پلاسٹک سے دور جانے اور متبادل پیکنگ مواد تلاش کرنے کی ترغیب دی جارہی ہے۔

چینی پالیسی سازوں کے نزدیک عوام کے معیار زندگی میں بہتری کی خاطر مزید نئے مواد کی ضرورت ہے، اور یہ سمجھنا ہوگا کہ پلاسٹک کیمیکل ہیں اور ان کی نگرانی کی جانی چاہئے۔ ایسے حل تلاش کرنے چاہئیں جو ہم پلاسٹک کو فطرت میں لیک نہ ہونے دیں۔یہی وجہ ہے کہ ملک میں پلاسٹک بیگ کی حوصلہ شکنی سمیت دیگر ادارے بالخصوص پوسٹل سروس سبز پیکیجنگ سے متعلق نئے قومی قوانین نافذ کر رہی ہے، جو پلاسٹک کے تھیلوں اور پلاسٹک ٹیپ کے استعمال کو کم سے کم کرتے ہیں،اس سے ہر سال لاکھوں میٹر کم ٹیپ استعمال ہو رہی ہے.دیگر اقدامات میں ایکسپریس ڈلیوری آئٹمز کی ضرورت سے زیادہ پیکیجنگ کو مرحلہ وار ختم کرنا اور سالانہ ری سائیکلڈ پیکیجنگ میں مصنوعات بھیجنے کا ہدف مقرر کرنا شامل ہیں۔

دوسری جانب یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ چینی شہریوں میں پلاسٹک سے دور ی کا احساس بڑھ رہا ہے، چینی خریداروں کی بڑھتی ہوئی تعداد ماحول کے بارے میں باشعور عادات کو اپنا رہی ہے جیسے سپر مارکیٹ میں اپنے بیگ استعمال کرنا، ایک معمول بنتا جا رہا ہے۔

چین نے نیشنل پارکس کی تعمیر کے ذریعے اپنے پہاڑوں، دریاؤں، جنگلات، کھیتوں، جھیلوں، گھاس کے میدانوں اور ریگستانوں کے ماحول کے تحفظ اور بحالی کو آگے بڑھایا ہے۔ملک نے ماحولیاتی تحفظ کے لئے قانونی نظام کو بہتر بنانے میں بھی اہم کامیابیاں حاصل کی ہیں، ماحولیاتی تحفظ کے قانون سمیت متعلقہ قوانین اور ضوابط کو نافذ کرنے اور ان پر نظر ثانی سے لے کر ماحولیاتی نقصان سے متعلق ایک مرکزی نگرانی کا نظام اور معاوضے کا نظام قائم کرنے تک، بے شمار مؤثر اقدامات کیے گئے ہیں۔ چین کاتکنیکی جدت طرازی اور جامع حکمت عملی کے ذریعے پلاسٹک آلودگی سے نمٹنے کا عزم ماحولیاتی تحفظ کے لئے اس کی لگن کو ظاہر کرتا ہے۔ پلاسٹک فضلے سے نمٹنے کے علاوہ، ملک نے اپنی قومی حکمت عملی میں ”خوبصورت چین اقدام” کے فروغ اور حیاتیاتی تنوع کے تحفظ کو مضبوط بنانے جیسے اقدامات بھی اٹھائے ہیں، جو ملک کے ماحول دوست رویوں کی عملی تصویر ہیں۔