سمندر کو مسخر کرنے کی جستجو

حالیہ دنوں میں غائب ہونے والی آبدوز ٹائٹین نے سب کی توجہ سمندر کی گہرائیوں کی طرف کھینچ لی ہے۔ انسان ازل سے کائنات دریافت کرنے کے لیے متجسس رہا ہے جس کے لیے کبھی وہ کہکشاؤں میں بھٹکتا ہے تو کبھی زمین کے نہاں خانوں کو کھوجتا ہے۔ اسی وجہ سے خلاء سے پانی کی گہرائیوں تک انسان کھوج میں مصروف ہے۔ اب یہ منحصر کرتا ہے کہ آپ کے پاس اس کو دریافت کرنے کے کتنے ذرائع اور وسائل ہیں، یہی تجسس ٹائٹن کی تخلیق کا سبب بنا، اس آبدوز کے مسافر جو کہ اشرافیہ سے تعلق رکھتے تھے اسی شوق کی پیاس بجھانے سمندر کی گہرائی میں جا پہنچے تھے چونکہ گہرے سمندر ہمیشہ سے غوطہ خوروں اور خاص طور پر سائنسدانوں کی دلچسپی کا مرکز رہے ہیں۔

سمندر کے اندر قدرت کے بہت سے راز پنہاں ہیں جس سے حضرتِ انسان پردہ اٹھاتا جارہا ہے چونکہ زمین کا 70 فیصد حصّہ پانی پر مشتمل ہے۔ اس لحاظ سے تین تہائی حصّے میں صرف پانی ہے۔ پچھلے ادوار میں جہاں سمندر کی تہہ میں اترنا ایک مشکل امر تھا آج کے دورِ جدید میں یہ پہلے کی نسبت آسان ہو گیا ہے۔ اب نت نئی ٹیکنالوجی اس میں معاون و مددگار بنتی ہیں۔

ماہرین کا خیال ہے کہ ہم سمندر کا ابھی10 سے 15 فیصد حصّہ ہی دریافت کر سکے ہیں۔ سمندر کی گہرائی کا آغاز عموماً سمندر کی اوپری سطح سے 1800 میٹر گہرائی سے ہوتا ہے۔ اس کے بعد گہرا سمندر شروع ہوتا ہے جہا ں مکمل تاریکی اور پانی کا دباؤ ہوتا ہے۔ گہرائی میں ہر 10میٹر کے بعد پانی کے دباؤ میں اضافہ ہوجاتاہے۔ گہرے سمندر کو دریافت کرنے میں سب سے ذیادہ خطرناک وہاں پانی کا دباؤ ہے جو اوپری سطح سے 1000گنا ذیادہ ہوتاہے۔ سمندری تہہ دریافت کرنے میں جو بنیادی پانچ ٹیکنالوجی استعمال ہوتی ہیں وہ یہ ہیں۔

1۔ Trimix and Rebreatherسمندر کی گہرا ئیوں میں سب اہم مسئلہ سانس لینا ہے۔ چونکہ گہرے پانی میں دباؤ کے نتیجے میں خطرناک گیسز بھی ہوتی ہیں۔ اس لیے عام آ کسیجن سلنڈر وہاں کام نہیں آتے۔ غوطہ خور سانس کی بحالی کیلئے ری بریتھر اینڈ ٹرائمیکس کا استعمال کرتے ہیں۔ آ کسیجن اور نائٹروجن پانی کے ذیادہ دباؤ کی وجہ سے جسم میں داخل ہوکر جسم میں زہریلے مادّے پیدا کرتی ہے۔ جو پھیپھڑوں کو ناکارہ بنا دیتا ہے۔ جس سے جان جانے کابھی خطرہ ہوتا ہے۔ نائٹروجن کی ذیادہ مقدار کی وجہ سے بے ہوشی طاری ہونے لگتی ہے۔ ٹرائمیکس میں تین گیسوں (آکسیجن، نائٹروجن، ہیلئیم) کا مرکب بنا دیا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے سمندری گہرائی میں ذیادہ دباؤ کی صورت میں گیس کے مضر اثرات سے محفوظ رہا جاسکتاہے۔ ٹرائمیکس کے ذریعے سمندر میں 60 سے 150 میٹر گہرائی تک جاسکتے ہیں۔ جہاں ایک گھنٹے میں محقق اسپیشیز کی دس اقسام دریافت کر لیتے ہیں۔

2۔ Atmospheric Diving Suit جب آپ سمندر کی دریافت کسی مشین میں بیٹھ کر کرنے کے بجائے خود اس کی گہرائی میں اتر کر کرنا چاہیں تو اس کیلئے اے ڈی ایس بہترین ذریعہ ہے۔ یہ غوطہ خوروں کیلئے بنایا گیا مخصوص لباس ہے جس سے سمندر کی گہرائی میں موجود دباؤ کے سامنے توازن برقرار رکھا جاسکتاہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب اسے پہن کر گہرائی میں اترتے ہیں تو سمندر میں ارتعاش پیدا نہیں ہوتا یعنی سمندرکی گہرائی میں موجود زندہ اجسام کو کسی کی موجودگی پانی کی حرکت نہ ہونے کہ سبب محسوس نہیں ہوتی جس کی وجہ سے وہ زندہ اجسام اپنی جگہ نہیں چھوڑتے اور محقق ان تک بآسانی رسائی حاصل کرلیتے ہیں۔ ایسا پہلا ڈائیونگ سوٹ سن 1715ء میں تیار کیا گیا تھا جو کہ موجودہ جدید Exosuit سے مماثلت رکھتا ہے۔ اے ڈی ایس کو 700 میٹر گہرائی میں کئی گھنٹوں تک استعمال کر سکتے ہیں۔ اس کے ذریعے گہرائی میں موجود زندہ اجسام پر تحقیق کی جا سکتی ہے۔ جوکہ پندرہ سو سے دو ہزار میٹر تک کی گہرائی میں پائے جاتے ہیں۔ گہرائی میں موجود مچھلیوں کی وہ اقسام جو اپنا مسکن تبدیل کرتی رہتی ہیں اس سوٹ کی وجہ سے ان تک پہنچنا بھی ممکن ہوسکاہے۔ کیونکہ سائنسدان انہیں دور سے دیکھتے تھے لیکن جب قریب جانے کی کوشش کرتے تو گہرائی میں موجود دباؤ اور انسانی جسم کے پانی میں ارتعاش کی وجہ سے دباؤ 30گنا ذیادہ بڑھ جاتا تھا۔ اس لحاظ سے محققین کو بغیر کسی مشین کی مددکے اتنی گہرائی میں اترنا بہت بڑی کامیابی ہے۔

3۔ Bathyscaphes یہ دیکھنے میں سب میرین کی طرح ہوتی ہے۔ جو پانی میں جا کر تہہ میں موجود چیزوں کا بتا سکتی ہے۔ اسے پانی کے اندر مہارت سے حرکت دینا نسبتاً مشکل کام ہے۔ یہ ایک پانی کے غبارے کی طرح ہوتی ہے۔ اس کا ذیادہ وزن سمندر کی گہرائی میں اترنے کا سبب بنتاہے۔ اس میں ایک گیس سے بھرا ہو بہت بڑا ٹینک لگا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ اس میں فولاد کی گولیاں بھی نصب کی جا تی ہیں۔ ان فولادی گولیوں کی وزن کی وجہ سے ہی Bathyscaphes سمندر کی تہہ میں اتر کر اس کی سطح پر جاکر رک جا تا ہے۔ جب اسے اوپر لانا ہوتا ہے تو یہ فولادی گولیاں اس میں سے خارج کردی جاتی ہیں اور یہ بے وزن ہوکر سمندرکی اوپری سطح پر آجاتاہے۔ Bathyscaphes سب سے پہلے 1960 میں 11 ہزار میٹر گہرے سمندر میں اتارا گیا تھا اور 20 منٹ بعد اسے واپس سمندر کے اوپر بلا لیا گیا تھا۔اس کے ذریعے ہی سائنسدان گہرائی میں موجود چمکتے ہوئے زندہ اجسام کا مشاہدہ کرسکے تھے۔ اس سمندر کے گہرے ترین حصّے میں اتارنے کے باوجود اس کا ذیادہ استعمال اس لئے نہیں کر سکتے کیو نکہ گیسولائن ٹینک ذیادہ دباؤ کی صورت میں چٹخ سکتاہے۔ جس سے نقصان کا خدشہ ہوتاہے۔

4۔ آبدوزڈیپ سبمرجنس وہیکل ( ڈی ایس وی ) کہلاتی ہے۔ یہ ایک ایسے مادّے سے بنی ہوتی ہے جو اسے سطح کی طرف اچھالتاہے۔ اسی طرح ایک ڈیپ سی چیلنجر(ڈی ایس سی) خاص طور پر ایک فلم ڈائرکٹر جیمز کیمرون کیلئے ڈیزائن کیا گیا تھا تاکہ اسے فلم کے کچھ مناظر دکھانے کیلئے ڈیپ چیلنجر میں لےجایا جاسکے۔ اس میں ایسا آلہ نصب ہوتا ہے جس کے ذریعے محقق سمندر کی گہرائی میں مختلف کا م کر سکتا ہے۔ سب میرین ایک واٹر کرافٹ ہے جو پانی میں آزادانہ کام کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ویسے توتجرباتی طور پر کافی آبدوز تیار کی گئی تھیں لیکن سب میرین کا ابتدائی ڈیزائن 19ویں صدی میں تیار کیا گیا تھا۔ سب میرین کو پہلی بار دوسری جنگِ عظیم میں (1918-1914) کے درمیان وسیع پیمانے پر استعمال کیا گیا۔ سب میرین کو جہاں بحری فوج حفاظت اور حملے کیلئے استعمال کیا جا تا ہے۔ وہاں اس کے دیگر اہم کام بھی لئے جاتے ہیں مثلاً سمندر میں ریسرچ، زیرِیں سمندر کیبل کی مرمت، جائزہ، بحالی وغیرہ۔ ذیادہ تر سب میرین کی باڈی سیلیکا دھات سے بنی ہو تی ہے۔ جس کے آ خر میں ہیمسفریکل لگا ہوتا ہے۔ اس کا عمودی ڈھانچہ عام طور پر امیڈشپس پر واقع ہوتا ہے۔ جس میں مواصلاتی نظام، حساس آلات، ربورٹیک آرم، اسٹوریج باکس، کیمرہ لائٹ کے ساتھ پیرسکپس بھی لگے ہوتے ہیں۔ سب میرین مختلف قسم کی ہوتی ہیں ان میں کچھ کم وقت کیلئے سمندر کے اندر جاتی ہیں اور بعض 6 مہینے کیلئے سمندر کے اندر رہ سکتی ہیں۔ 1970میں ایلویک کی مدد سے ایسے اجسام دریافت ہوئے جو غیر نامیاتی مرکبات سے تونائی حاصل کر کے chemosynthesis کر رہے تھے۔ سائنسدان تحقیق کر رہے ہیں کہ سمندرکی گہرائی کے ان حصّوں میں جہاں سورج کی روشنی نہیں پہنچ سکتی وہاں یہ زندہ اجسام کیسے وجود میں آئے۔

5۔ Remotely Operated Vehicle یہ ریمورٹ کے ذریعے سمندر کی تہہ میں چلنے والا روبوٹ ہے جس کے ذریعے سمندر کی تحقیق میں مدد ملتی ہے۔ اس میں محقق کو ذیادہ وقت لگتاہے کیونکہ اس میں وہ خود سمندر میں نہیں اترتے بلکہ اسے باہر سے کنٹرول کرتے ہیں۔ اس کے مصنوعی ہاتھ ہوتے ہیں، کیمرے اور لائٹ نصب ہوتی ہے۔ جس سے یہ وہاں کی فوٹیج لیکر اسی وقت اوپر بھیج دیتے ہیں۔ اشیاء محفوظ کرنے کی جگہ ہوتی ہے۔ اس کو ہم خلائی مشین جیسا کہہ سکتے ہیں جیسے خلا میں سا ئنسدان مشاہدے کیلئے خلائی مشین بھیج دیتے ہیں اورخود زمین میں رہ کرخلا کا مشاہدہ کرتے ہیں اسی طرح اسے بھی سمندر کی گہرائی میں چھوڑا جا تا ہے لیکن آر او وی کو کام مکمل ہونے کے بعد واپس بلایا جا سکتا ہے۔ بعض دفعہ اس سے جاسوسی کا کام بھی لیا جاتا ہے۔ اسی کے ذریعے ٹائی ٹینک جہاز کو تلاش کیا گیا تھا۔