طلبہ کا سفر

جامعہ کراچی کے چلتے ہوئے پوائنٹس طلباء وطالبات بلکہ خصوصاً طالبات کے لیے جو ہے جیسا ہے کی بناء پر نہایت پسندیدہ اور مقبول عام ہیں جو لوگ اس میں سفر کرنے کی صعوبتوں کو اس کے بغیر سفر کرنے کی صعوبتوں سے تقابل کرتے ہیں تو مہنگائی اور معاشرتی لاپرواہی سے ڈرے ہوئے والدین بھی ترجیحی بنیادوں پر بچیوں سے یہی کہتے ہیں کہ ” بیٹا کوشش کرکے پوائنٹ پر ہی جانا” بلکہ اکثر یہی دیکھا گیا ہے کہ ماں، باپ بھائی وغیرہ خود قریب ترین واقع پوائنٹ گزرنے کے مقام پر طالبات کو خود چھوڑنے آتے ہیں.

آپ اس کا اندازہ یوں لگائیں کہ اک ماں اپنی بیٹیوں کو محفوظ ترین طریقے سے جیسے محرم مردوں کی حفاظت میں سفر کے لئے بھیجتی ہے یہ پوائنٹس ایسا ہی کام سر انجام دیتے ہیں کھچا کھچ بھرے ہوئے پوائنٹس جس میں داخل ہونے کے لئے ایک دھکا باہر سے اور ایک دھکا اندر آ کر لگانا ضروری ہوتا ہے اور جب کھڑے ہو تو جب لگتا ہے کہ سانس نہیں لیا جا رہا تو اچانک معلوم ہوتا ہے کہ جہاں کھڑے ہیں وہاں سانس لینے کی جگہ ہی اتنی ہے کہ یہ احساس تک ختم ہوجاتا ہے کہ  ” سانس ہم لے رہے ہیں یا ہمارے ساتھ کھڑے وجود”؟ لیکن یہ طے ہے کہ جسم میں سانس کی آوت جاوت روانی سے چلتی ہے جبھی الحمدللہ باحفاظت اپنے اپنے مطلوبہ مقامات پر اتر کر سانس بحال کر ہی لی جاتی ہے.

اتنے مسائل کے باوجود اس دجالی دور میں گھر بیٹھے والدین کے دل کا سکون ہیں یہ جامعہ کراچی کے چلتے ہوئے پوائنٹس کہ طلباء وطالبات کے جائز احتجاج پر بھی کہا کرتے ہیں.

” چلو جیسے بھی ہیں تم لوگ

” عزت” سے تو جاتے ہو ناں ۔”

اور وہ سب اس دور دجل کی”عزت افزائی” کے عوامی مظاہروں کو جانتے ہوئے اس سفر پر خطر کو ہی عزت سمجھتے ہوئے شکر ادا کرتے نہیں تھکتے اور اس پر بھی یہ مظلوم طالبات اور ان کے متعلقین پوائنٹس چلانے کے تمام تر انتظامات کرنے والے افراد کو دعائیں دیتے نہیں تھکتے ایسے میں آپ نے دعاؤں کا یہ منبع وسلسلہ ہی توڑ دیا؟

چلیں امتحانات اور دیگر سرگرمیوں کو بھی چھوڑ دیں ذی الحجہ کے مقدس ترین ایام  ہیں آپ اتنی بڑی نیکی اور اس پر حاصل ہونے والی دعاؤں سے محروم رہنا کیسے پسند کر سکتے ہیں کہ جب بات آپ کے اپنے ہاتھ میں ہو ۔

پوائنٹس چلانے کے لیے دامے درمے سخنے کرنے والے تمام تر انتظامات کرنے والوں سے درخواست ہے کہ جلد از جلد فیول واجبات کی ادائیگی کرکے پوائنٹس چلانے بحال کیجئے اسی ذی الحجہ کی ایام میں ہی کر دیں تو یہ دعائیں آپ کے فرائض کی ادائیگی کو ہزاروں گنا زیادہ مقبول عام بنا کر رب العالمین کی رضا کا درجہ پالیں گے ۔

ذی الحجہ کے ابتدائی ایام میں یہ چھوٹا سا مسئلہ آج ہی حل کرنے کی کوشش کی جائے کہ ۔ جو جو سفر کرے گا وہ دعا دے نا دے اللہ سبحان و تعالیٰ بے نیاز ہے دلوں کے بھید سے واقف ہے وہ چاہے تو یہیں بیٹھے بیٹھے ہی آپ کے فرائض کی بر وقت،اور محبت سے ادائیگی پر ہی آپ سب کو حج مبرور کا ثواب بھی دے سکتا ہے۔