بلدیاتی انتخابات کے تکلیف دہ حقائق

کراچی میں جماعت اسلامی پر لوگوں نےاعتماد کیا لیکن بلاول بھٹو بضد رہے کہ میئر جیالاہی ہوگا۔ ایک طرف 3 لاکھ ووٹ دوسری طرف 9 لاکھ ووٹ ہیں تو یہ کیسے ممکن ہے؟ کیا عوام شہزادوں کی خواہشات پر چلیں گے؟ یہ ظلم و جبر کا نظام نہیں چلے گا۔ آصف زرداری کہتے ہیں کہ الیکشن اس وقت ہوگا جب میں چاہوں گا۔ میں کہتا ہوں آپ بادشاہ نہیں ہیں، یہ ملک آئین و قانون کے مطابق چلے گا۔

پیپلزپارٹی کی سالوں سے سندھ میں حکومت ہے لیکن وہاں غربت ناچ رہی ہے، گوٹھوں کو عوام کے لیے جہنم میں تبدیل کر دیا گیا۔کراچی کے حالیہ بلدیاتی انتخابات نے ایک بار پھر ہمیں کچھ خوفناک اور تکلیف دہ حقائق یاد دلائے ہیں، کوئی بھی باضمیر شخص مندرجہ ذیل چار سوالات کی روشنی میں حقائق کا ادراک کر سکتا ہے۔

1) اندرون سندھ کے لوگوں کے حالات زندگی کیا ہیں؟ صوبہ سندھ میں رہنے والے عام لوگوں کے حالات زندگی بدترین ہیں،وہاں ایک ایسی زندگی ہے جس کا کوئی تصور بھی کر سکتا ہے، صوبے میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے، کرپشن کے ساتھ ساتھ انسانوں کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک پیپلز پارٹی کے ’’وڈیروں‘‘ اور لیڈروں کی پہچان ہے۔

2) میں حال ہی میں خود کراچی میں تھا۔ کراچی کی گلیوں میں جا کر جائزہ لیا۔ کوئی بھی شخص یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ کراچی کے لوگوں نے کبھی پیپلز پارٹی کو ووٹ دیا ہے، تاہم حجام کی دکانوں سے لے کر یونیورسٹی کے پروفیسروں تک عام مرد و خواتین حافظ نعیم کو واحد امید اورمیئر کے طور پر دیکھتے ہیں جو اپنے حقوق کے لیے کھڑا ہوا ہے، ملک ریاض سے کراچی کے عوام کے اربوں روپے واپس دلائے اور کرپشن کے خلاف ڈٹ گیا ہے، کے الیکٹرک کے کرپشن کے خلاف آواز اٹھائی اور الخدمت کی امدادی کارروائیوں کی قیادت کی، حافظ نعیم نے نظرانداز کیے جانے والے کراچی والوں کو امید کی ایک جھلک دکھائی ہے۔

3) کراچی کی تعمیر و ترقی جماعت اسلامی کے میئرز نعمت اللہ خان اور عبدالستار افغانی کے دور میں ہوئی ہے،ان افراد نے جس طرح عوامی خدمت کی ہے اس کی مثال نہیں ملتی،کسی شخص نے آج تک ان پر کرپشن کا الزام نہیں لگایا دوسری طرف یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ پیپلز پارٹی کرپشن مافیا ہونے کی شہرت رکھتی ہے۔

4) کراچی کے حالیہ انتخابات میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پیپلز پارٹی نے 300,000 ووٹ حاصل کیے اور کراچی میں تیسرے، پی ٹی آئی دوسرے نمبر پر رہی جبکہ جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی نے مجموعی طور پر 900,000 ووٹ حاصل کئے۔چنانچہ سوال یہ ہے کہ کراچی کا میئر کسے ہونا چاہیے؟ جناب بلاول کی پرورش شہزادہ ہونے کی ذہنیت کے طرز پر اور ان کے والد جناب زرداری کی بادشاہ کے طور پر کی گئی ہے۔

سندھ کے عام لوگ ان کے پاؤں چھوتے ہیں اور کبھی ان کے ساتھ بیٹھنے کی ہمت نہیں کرتے بلکہ ان کے سامنے زمین پر بیٹھتے ہیں۔سندھ میں سات ستاروں کا حامل بھٹو کا مقبرہ مٹی کے ایسے گھروں کے درمیان گھرا ہوا ہے، جہاں پانی ہے نہ بجلی، یہاں بھوکے بچے عوام کی حالت کی ترجمانی کر رہے ہیں۔

جناب آصف زرداری اور جناب بلاول بھٹو کو سمجھنا چاہیے کہ کراچی کا معاملہ تھوڑا مختلف ہے،کراچی کے عوام نے کبھی آمریت قبول نہیں کی، ایک مرتبہ پھر وہ ثابت کریں گے کہ کراچی کا معاملہ مختلف ہے، یہ انتہائی تلخ حقیقت ہے کہ 1971 کے انتخابات میں شیخ مجیب الرحمن نے 160 نشستیں حاصل کی تھیں، جبکہ اس کے مقابلے میں پیپلز پارٹی نے صرف80 نشستیں حاصل کیں، مگر پاکستان کے حقیقی حکمرانوں نے بھٹو کو پاکستان توڑنے کی اجازت دی ان انہی قوتوں نے کراچی میں اقلیت کو میئر شپ پر قبضہ کرنے کی طاقت عطا کی ہے، یہ صورتحال دیر پا نہیں ہوگی اور نہ یہ کراچی کے پرعزم لوگوں کو قابلِ قبول ہوگا۔