ایمان ومحبت کی آزمائش‎

تفکر، ایمان اور قربانی یہ وہ مثلث ہے جس کے گرد ہمیں اس انسان کی زندگی گردش کرتی دکھائی دیتی ہے جسے رب نے سب آزمائشوں میں پورا اترنے پر “خلیل اللہ” کے لقب سے نوازا. جس کی ہر ہر ادا کو رہتی دنیا کے لیے یادگار بنا دیا. (مناسک حج کی شکل میں)

اس پس منظر کو ذہن میں لاتی ہوں تو سوچتی ہوں اللہ وہ دل و دماغ تو مجھے بھی ملے لیکن میری سوچ کیا ہے اور ابراہیم علیہ السلام نے کیسے سوچا؟ قوم ستارہ پرست ہے تو ستاروں کو جھٹلایا، باپ بت پرست اور بت تراش ہے تو بتوں کا انکار کر دیا. یہ تفکر ہی تھا جس نے انکار کا حوصلہ پیدا کیا اور جب سب جھوٹے خداؤؤں کی نفی کر دی تو مالک حقیقی پر ایمان کا اقرار کر لیا. دیکھا نہیں ہے اس کو، معلوم نہیں ہے کہ سمت کیا ہے پکار اٹھتے ہیں

انی وجھت وجہی للذی فطر السماوات والارض حنیفاً وما انا من المشرکین

ترجمہ: بےشک میں اپنا رخ اس ہستی کی طرف کرتا ہوں جس نے زمین وآسمان کو تخلیق کیا ہے اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں.

کیسا تھا وہ یقین لانا کہ پھر کائنات کی ہر چیز محو حیرت تھی کہ ایک عاشق صادق محبوب کی محبت کا قرض آگ میں کود کر ادا کر رہا تھا،

بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق

عقل ہے محو تماشا لب بام ابھی اور پھر دنیا نے اس محبوب کی طاقت کا اندازہ بھی کر لیا کہ جس نے اپنے محب پر دنیاوی قانون توڑ ڈالے. جلا کر راکھ کر دینے والی آگ کو حکم ہوا گلستاں بن جا میرے عاشق کے قدموں میں.

ایماں اپنی پرکھ میں پورا اترا تو آزمائشوں کا آغاز ہوا.

دنیا میں جن کے دم سے وجود ہے انہیں والدین سے دور ہو گئے یہاں تک کہ محبوب نے فرمایا ان کے حق میں معافی بھی طلب نہ کرنا.

اگلی قربانی گھر اور وطن کی تھی سبھی رشتوں کو خیر باد کہہ کر نئی دنیاؤں کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے،

بڑھاپے میں اولاد کی خوشی نصیب ہوئی وہ بھی اولاد نرینہ کی شکل میں اور اک نیا امتحان سامنے آکھڑا ہوا. محبوب آزمانا چاہتا ہے کہیں اس نئی محبت نے میری چاہت کم تو نہیں کر دی فرمایا چھوڑ آؤ دور ایک صحرا میں.

جب چھوڑ کر پلٹنے لگے ہیں تو نیک اور وفا شعار بیوی سوالی بنتی ہیں کہ ایسا کیوں؟ اس صحرا بیاباں میں جہاں سایہ ہے نہ پانی، انساں ہیں نہ حیوان، میں اور معصوم چند ماہ کا شیر خوار کہاں رہیں گے، جواباً فرمایا اس رب کائنات کا حکم ہے اپنی محبت میں شراکت برداشت نہیں کی.

صالح حاجرہ ایمان و توکل سے بھر پور لہجے میں فرماتی ہیں، پھر میرا رب ہمیں ضائع نہیں کرے گا.

پھر معجزے رونما ہوئےحاجرہ کے جگر گوشے کے قدموں سے وہ چشمہ پھوٹ نکلا جو ابد تک تک جاری رہے گا. پھر طائروں کے جھنڈ منڈلانے لگے، بستیوں کی بستیاں خیمہ زن ہوئیں اور ایک نیا خطہءارضی آباد ہوا.

وقت گزرا اور محبوب کو ایک نئی قربانی کی طلب ہوئی. یہاں بھی عاشق نے اپنے عشق کی انتہا کر دی نوعمر بیٹے کی گردن پرچھری چلتی زمین اور آسماں نے دیکھی اور دانتوں میں انگلیاں دابے اک دوسرے سے سوالی ہوئے، کیا کوئی عشق حقیقی میں اتنا بھی فنا ہو گا؟ نہ کوئی تھا، نہ کوئی ہے اور نہ کوئی ہوگا. محبوب اس جاں نثاری و فرماں برداری پر عش عش کر اٹھا اور بے اختیار پکار اٹھا: “آج سے میرا خلیل ہے تو، تیری مثال رہتی دنیا تک قائم ہوئی. اب جس نے بھی قیامت تک میری محبت کو پانا ہے تو اسے تیرے نقش پا پر چلنا ہو گا.” یہ ہے وہ مثلث جو ابراھیم علیہ السلام کو عام سے خاص کر گئی.

جہالت تو آج بھی ویسی ہے، کہیں نفس کا بت ہے اور کہیں ریت و رواج کے بت، کہیں خاندان کا بت تو کہیں بے حیائی کے بت، جنہیں چاہ کے بھی توڑنا مشکل، کہیں گھر کی محبت اور کہیں مال کی محبت، کہیں آرام کی طلب ہے تو کہیں رشتوں کی چاہت، کہیں خواہشوں کے جھرمٹ اور کہیں ناراضگی کا خطرہ

نہ تفکر ہے اور نہ قربانی. ایمان باللسان ہے ایمان بالقلب نہیں. رسم ہے، دکھاوا ہے، مقابلہ بازی ہے ایک دوڑ ہے آگے بڑھنے کی. خدا را. اس عید قرباں پر اک لمحے کے لیے یہ ضرور سوچیے گاکہ میں کون ہوں؟ میں کیوں ہوں؟ میں کیا کروں؟ جو رب کائنات کی چاہت کا حقدار بن جاؤں.

ان الصلوۃ ونسکی ومحیای ومماتی للہ رب العالمین

مجھے کچھ سجھائی دے نہ

مجھے کچھ دکھائی دے نہ

کروں جسطرف بھی چہرہ

تیری رحمتوں کو پاؤں

میری لغزشوں کو مولا

اپنے کرم سے دور کرنا

میں جیوں تری رضا میں

میرا مرنا قبول کرنا

اے اللہ! اس عید الاضحیٰ کو میری زندگی کی یادگار عیدبنا دے. مجھے اپنے پیارے انبیاء کے نقش قدم پر چلنا نصیب فرما. میرےایمان اور محبت کو آزمائش میں پورا اترنا نصیب فرما۔ فتنوں کے دور میں ان کی سنتوں کو تازہ کرنے والا بنا دے. آمین