موجیں کس کی سگی ہیں؟

ابھی تودل دکھی تھا کراچی کے عوام کے مینڈیٹ پہ دن دیہاڑے پڑنے والے ڈاکے کے حوالے سے، ابھی تو آنکھیں نم تھیں ڈاکٹر عافیہ کےلیے۔ یہ ایک اورحادثہ رونماہوگیا۔ بحیرہ روم کی سفاک لہریں ایک مرتبہ پھر انسانوں کو نگل گئیں۔ آہ۔  100سے زائد پاکستانیوں کی ہلاکت کی تصدیق ہوچکی ہے۔

کسی وبا یابلاکے نتیجے میں انسانی زندگیوں کاضیاع ایک بہت بڑاحادثہ ہواکرتاہے۔ لیکن جب معاشی تگ ودو کے راستے میں انسان زندگی سے ہاتھ دھوبیٹھتے ہیں تو یہ حادثہ حادثہ نہیں رہتا سانحہ بن جاتاہے۔ اور آج ترقی وخوشحالی کے اس دور میں اس قسم کے سانحات انسانی زندگی کا مقدر بنتے نظر آتے ہیں۔

جب زندگی کاواحد مقصد کمانا رہ جائے۔

جب کھوکھلے رواجوں کو مجبوری بنالیاجائے۔

جب نظام کے علمبردار خود تو سونے کے چمچ میں کھائیں اور ساری محرومیاں عام لوگوں میں تقسیم کردیں۔

جب استعمار کی توند کئی ملکوں کو ہڑپ کرکے بھی بھرنے نہ پائے۔

توپھر ایسا ہوتاہے کہ۔ انسانی زندگیوں سے کھیلنے والے آگے بڑھتے ہیں انسانی اسمگلنگ کادھندا خوب چمکتاہے۔

جب جب ایسے سانحات رونما ہونا  ہوجاتے ہیں اور پیچھے جو رہ جاتاہے وہ، یوم سوگ، اعلان ہوتاہے. واقعہ کی انکوائری کی ہدایت ہوتی ہے، متعلقہ مجرموں کے خلاف، گھیرا، تنگ کرنے کی ہدایت ہوتی ہے۔

بلاشبہ مذکورہ اقدامات کی بنیاد میں نیک نیتی، ٹھوس منصوبہ بندی، اورشفافیت ہوتو ان کے اثرات ونتائج نظر آئیں گے۔

مگر ہم دیکھتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے۔

راقم کی درخواست عام آدمی سے ہے کہ خدارا اب اس پر سوچیں کہ۔۔۔۔ توکل، قناعت، سادگی یہ اوصاف کتابی نہیں عملی زندگی کو سہل تر کرنے والے ہیں۔۔۔۔ ضروری نہیں کہ ہر خواب سہانا ہی ہو لہٰذا خواب اپنی زمین پہ رہ کے ہی دیکھاجائے تواچھاہے۔

معاشرے کی آنکھ میڈیا اور اہل الرائے حضرات سے درخواست ہے کہ افراد کی اخلاقی و ذہنی تربیت کالائحہ عمل تیارکریں، حقیقی مقصد زندگی کاشعور دیں۔

اپنے حکمرانوں سے اپیل ہے کہ انسانی زندگی صرف حادثات وسانحات ہی سے ختم نہیں ہوتی۔ فناہرایک کوہوناہے۔ آپ کو بھی۔ اورآپ کے بعد بھلے پرچم تین دن سرنگوں رہے، بھلے سوگ دس دن کا اعلان کیاجائے یا مہینہ بھرکا۔ حساب کتاب سے آپ نہیں بچ پائیں گے۔ بڑی عدالت کا بڑا کٹہرا اور آپ کی پیشی۔ اس منظر کو آج ہی احاطہ تصور میں لے آئیے اور اپنی تجوریوں کے منہ غریب مفلس بے روزگار پاکستانیوں کے لیئے کھول دیجئے۔

استعماری قوتوں سے ہم کہناچاہیں گے کہ۔ تمہاری توند تو قیامت تک نہیں بھرنے والی ہاں پھٹ سکتی ہے۔ ملکوں ملکوں تم نے افلاس کے پیکجز تقسیم کیئے۔ تو ! بحیرہ روم کی موجیں تو کسی کی سگی نہیں ناں۔

بعید نہیں انہی موجوں پہ سوار کوئی مسیحا۔ انسانیت کا کوئی نجات دہندہ، کوئی سرپھرا چلا آرہا ہو۔