گندگی کاراستہ روکناہوگا

کتنی سادگی تھی گذشتہ زمانے میں، میں کوئی صدیوں پرانی بات نہیں بلکہ چند دہائیاں قبل کی بات کر رہی ہوں، جب ہم بچےتھے سادہ لباس، سادہ خوراک، لوگ ایک دوسرے سے ملتے تو محبت اور اپنائیت سے. دوسری یہ بات کہ یہ نہیں تھا کہ معشرتی برائی اورگندگی نہیں تھی یا آس پاس صرف شرافت کا راج تھا، بلکہ اصل میں گندگی و بے حیائی اور چالبازی کو ترویج نہیں کیا جاتا تھا یعنی برائیوں کے پھیلنے کا موقع بہت کم تھا.

ملک میں ایک پی ٹی وی ہی تھا جس کی نشریات تفریح کے ساتھ ساتھ اصلاح معاشرہ کی بھی ذمہ داری نبھا رہیں تھی، عورتوں عبایا اور برقعہ نہ اتنا زیادہ نہیں استعمال ہوتا تھا لیکن سر ڈھکے ہوتے تھے، عریانی سر عام نظر نہیں آتی تھی شام کو گھر کے تقریباً سب افراد کام دھندوں سے فارغ ہو کر ٹی وی کے سامنے بیٹھتے پروگرام اورڈرامے دیکھ کرانکے ہلکے پھلکے قہقہوں سے گھر کی فضا معطر ہوجاتی، جس دن کسوٹی،طارق عزیز شو وغیرہ قسم کا کوئی پروگرام نشر ہوتا بڑوں کے ساتھ بچوں کی دلچسپی بھی دیدنی ہوتی پھر پورا ہفتہ ہم سب کا دلچسپ مشغلہ کسوٹی یا طارق عزیز شو ہوتا. جس سے ہمارے ذہنوں کی بھی آبیاری ونشو ونما ہوتی. اکثر ہم بچوں کے ساتھ ہماری آمائیں بھی اس کھیل میں شریک ہوجاتی.

ریاست اسلامی کی جھلک چاروں طرف کافی حد تک نظر آتی تھی. پھر وقت کی رفتار آگے بڑھتی گئی جدت پسندی کا لبادہ چاروں طرف نظر آنے لگانجی ٹی وی چینلز میں اضافہ کیا ہوا کہ ان چینلز میں پیسے کی ہوس میں مقابلہ بازی نے اپنی نشریات کی مانگ بڑھانے کے لئے ساری حدود پار کر دیں نشریات کی وہ سادگی، وہ شرافت جو پی ٹی وی کی پہچان تھی کہیں گم ہوتی گئی. نجی ٹی وی چینلز نے اپنے پروگراموں کی مانگ بڑھانے کے لئے مرچ و مصالحہ کی بہتات کردی اس چٹ پٹی مصالحے دار نشریات کا عوام الناس کو ایسا مزا چڑھا کہ انکی زندگیوں میں بھی اس کا رنگ چڑھتا گیا، بے حیائی، عریانیت، چالاکیاں، چرب زبانی، نت نئے فیشن ڈانس، گانے، سارے مصالحہ جات ملا کر جو ہانڈی پکی اس کے ذائقے ہر دوسرے گھر میں بازاروں، دفتروں غرض کہ ہر جگہ دیکھے جا سکتے ہیں. یہاں تک کہ معصوم بچوں میں بھی یہ طور طریقے نظر آنے لگے ہیں جوکہ انتہائی سنگین نہج پر پہنچ چکے ہیں.

ایک ڈرامہ کا ایک سین ہے بیوی نہ صرف شوہر کو تھپڑ رسید کررہی ہے بلکہ اس کے منہ پر غصے سے تھوک بھی رہی ہے. یہ کس معاشرے کی عکاسی کی جارہی ہے اسلامی معاشرے میں تو اس بےہودگی کی کہیں گنجائش نہیں پھر لڑکیوں پر اسکے اثرات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ابھی میں نے چند دن پہلے سنا کہ ایک خاتون کی اور اسے شوہر کے درمیان ہاتھا پائی ہوئی پھر بیوی نے کورٹ میں شوہر کے خلاف مقدمہ بھی درج کروایا ہے.

اس قسم کے واقعات معاشرتی زندگی میں زہر گھولتے ہیں رشتوں کا اعتبار کھو دیتے ہیں ضرورت اس بات کی ہے کہ اس صورت حال کو کس طرح قابو کیا جائے؟ ظاهر ہے اس سلسلے میں بڑی ذمہ داری حکومت وقت کی ہے، قانون اور لائحہ عمل حکومت کی طرف سے نافذ ہونے چاہیے تاکہ اس گندگی و غلاظت کو روکا جاسکے جس نے آج اس اسلامی ریاست کو آلودہ کیا ہوا ہے اسلامی ریاست کے حکمرانوں کی ذمہ داری اسلامی تعلیمات اور طور طریقوں کو رائج کرنا ہے اس سلسلے میں یہ حکومت وقت کا کام ہے کہ چاروں طرف تمام اداروں پر نظر رکھیں کہ کہیں اسلامی اصول و ضوابط کے خلاف کوئی کام تو نہیں ہو رہا ہے جس سے ریاست کی فضا آلودہ ہو رہی ہے اور معاشرے میں گندگی پھیل رہی ہے، لیکن حکومت تو کسی اور ہی طرف راغب ہے اسے ماحول کی اس آلودگی کی کیا فکر ہوگی. اس طرف توجہ نہیں دی گئی تو یقیناً معاشرے میں مزید گندگی و زہر پھیلے گا جس کو روکنا نا ممکن ہوگا.