رجوع الی اللہ

من حیثیت القوم آج ہم جس نازک دورسے گزر رہے ہیں یہ سب ہمارے اپنے اعمال ہی کی سزا ہیے ہم نے پچھہتر سالوں تک جو کچھ بویا اسی کا پھل مہنگائی، بدامنی، چوری، ڈکیتی، بد عنوانی اور سیاسی، معاشی ومعاشرتی بدحالی کی صورت میں کاٹ رہے ہیں۔ آج بڑوں کے ساتھ ساتھ چھوٹے بچوں کی بھی نہ جانیں محفوظ ہیں نہ عزتیں سمجھ نہیں آرہا ہم کس معاشرے میں جی رہے ہیں۔ کیا یہ اسلامی معاشرہ ہے؟ نہیں اسلامی تو دور کی بات یہ تو انسانی معاشرہ کہلانے کے لائق بھی نہیں ہے جہاں اخلاقی انحطاط نقطہ عروج کو چھو رہا ہے کاش کہ ہم یہ ادراک کر سکتے کہ کس طرح ہم اغیار کی سازش کا شکار ہوئے ہیں۔

عوام بالخصوص نوجوانوں کو جو کہ کسی بھی ملک کا قیمتی ترین سرمایہ ہوتے ہیں انہیں ان کے مقصد حیات سے بھٹکا دیا گیا ہے ہماری نوجوان نسل بلا شبہ پٹری سے اتر چکی ہے موسیقی سے دیوانگی کی حد تک لگاؤ، تعلیمی اداروں میں منشیات کا کھلے عام استعمال، نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کا آزادانہ میل جول اور کنسرٹ کے نام پر بے حیائی اور عریانیت جس طوفان کو دعوت دے رہے ہیں اس کے نمونے ہمیں تعلیمی اداروں، ریسٹورنٹس اور تفریحی مقامات پر آئے روز دیکھنے کو ملتے ہیں خصوصا یونیورسٹیوں کے حالات سے کون واقف نہیں ہے کہ وہاں اخلاقی اقدار کی کس طرح دھجیاں بکھیری جا رہی ہیں۔

درسگاہیں تو طالب علموں کے اخلاق و کردار کی تربیت کرتی ہیں مگر افسوس کے آج وہاں ایک سوچی سمجھیں اسکیم کے تحت ہمارے نوجوانوں کو آزاد خیالی اور روشن خیالی کے نام پر لادینیت اور بے راہ روی کی طرف دھکیلا جارہا ہے۔ جب حکومت کی سرپرستی میں آزادانہ مخلوط محفلوں کا انعقاد ہو جس میں ٹرانس جینڈر کو پروموٹ کیا جا رہا ہو، ادبی میلے کے نام پر پر رقص و سرور کی محفلیں سجائی جا رہی ہوں، ڈرامے جو کہ تہذیب و ثقافت کا آئینہ ہوتے ہیں ان میں میں اخلاقی اور شرعی حدود کو پامال ہوتا ہوا دکھایا جائے، طلاق اور خلع کی ترغیب دی جائے اور نکاح کو جو کہ اللہ کا حکم ہے مذاق بنا دیا جائے تو ہمیں سنجیدگی سے سوچنا ہوگا کہ آئندہ آنے والی نسلیں کس نہج پر چل نکلیں گی۔

اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ حکومت خود قومِ لوط کے عمل کو عام کرنے کے لئے ماحول سازگار بنا رہی ہے آج ہمارے ملک میں حکومت کی سرپرستی میں وہ سارے کام ہو رہے ہیں جو اللہ کے غیض وغضب کو دعوت دینے کا سبب بنیں۔

حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا “اس امت میں بھی زمین میں دھنسنے، صورتیں مسخ ہونے اور پتھروں کی بارش کے واقعات ہونگے، اس پر ایک مسلمان مرد نے پوچھا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ یہ کب ہوگا؟ آپ ﷺ نے فرمایا جب گانے والی عورتوں اور باجوں کا عام رواج ہوگا اور کثرت سے شرابیں پی جائیں گی۔ (ترمزی شریف)

ہماری تمام تر نافرمانیوں کےباوجود ہمارا رب اگر ہم پرعذاب مسلط نہیں کر رہا تو وہ یقیناً ہمیں مہلت عمل دے رہا ہے کاش کہ ہم اب بھی ہوش کےناخن لیں اور اپنی بداعمالیوں سے باز آجائیں، اپنے رب کی طرف رجوع کریں اور اجتماعی توبہ واستغفار کر کے اپنے رب کو راضی کرنے کی کوشش کریں تو وہ رب رحیم ضرور ہماری توبہ قبول فرمائے گا اور ہماری غلطیوں کو معاف کر دے گا کیونکہ قرآن مجید میں سورہ الزمر میں اللہ فرماتا ہے۔

قُلْ یعِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رحمَةِ اللهِ إِنَّ اللهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا إِنَّهُ هُوالْغَفُورُ الرَّحِيم،

کہہ دو کہ اے میرے بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے اللہ کی رحمت سے نا امید نہ ہونا۔ اللہ تو سب گناہوں کو بخش دیتا ہے۔ (اور) وہ تو بخشنے والا مہربان ہے ۔ (الزمر۔53)

لہذا یہ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے کہ رب کے حضور ہم اپنے گناہوں کا اعتراف کریں، رجوع الی اللہ کریں اور اپنے نوجوانوں کو دجال کے ساتھی بننے سے بچانے کی ہر ممکن کوشش کریں۔