استقامت ہو تو ایسی‎‎

عافیہ کیس کو آج تک جتنا بھی الجھایا گیا، ایک مومن کا دل مگر اس سے زیادہ فراست سے معاملے کو سمجھتا گیا، جتنے بھی شکوک پیدا کرنے کی کوشش کی گئی اتنا ہی حسنِ ظن قلبِ سلیم رکھنے والوں میں پیدا ہوتا گیا اور جو کچھ بھی الزامات لگائے گئے انہوں نے عافیہ کو مجرم ثابت کرنے کی بجائے الٹا فرد جرم عائد کرنے والوں کے خوف زدہ دلوں اور قساوت قلبی ہی کو روز بروز عیاں کیا۔

کیا پاکستان ایک آزاد ملک نہ تھا کہ دن دیہاڑے اسلام کی شہزادی کو غیر فرد جرم لگا کر لے گئے اور ستم کی انتہا تو یہ تھی کہ ملک پر ملک کے چوکیدار ہی کا اقتدار تھا۔ اللہ کے لشکر کا سپاہی ہوتا تو کسی فرعون کی جرات نہ ہوتی کہ ملت کی بیٹی کی طرف نگاہ غلط انداز سے دیکھتا۔ ننگ ملت، ننگ قوم یہ چوکیدار تو اپنے اعمال نامے کے ساتھ اللہ کی عدالت میں پہنچ گیا مگر بہن کے معاملے میں بے غیرتی کے اس شرمناک رویے کو ملت کبھی معاف نہیں کرے گی۔

فطرت افراد کے اعمال سے اغماض تو کر لیتی ہے

کبھی کرتی نہیں مگر ملت کے گناہوں کو معاف

ہم سمجھتے ہیں کہ اس بے بس خاتون کا کوئی رشتے دار نہیں تھا، اولاد، بہن، بھائی، والدین بھی نہ تھے مگر ایک لاوارث کا ولی حکمران نہیں ہوتا؟ آج تک کسی نے حق ولایت کیوں نہ ادا کیا؟ اقتدار کی رسہ کشی میں گرم جوشی سے حصہ لینے والوں نے اپنے اقتدار کی مضبوطی کے لئے بھی اس مہم میں حصہ نہ لیا یقینا اقتدار کی باگیں تھمانے والے بے غیرتی کے ٹیسٹ میں پورے نمبر لینے والوں کو ہی تختہ اقتدار تک لاتے رہے، ان میں ایسے بے غیرت بھی تھے جنہوں نے ابن قاسم کارڈ پھینک کر عوام کی ہمدردی حاصل کی مگر وہ ظالم حجاج بننے سے بھی محروم رکھے گئے۔

یقینا یہ بد نصیبی کی انتہا تھی۔ سب سے زیادہ دکھ تو ان حکمرانوں کی بے حسی پر بے اور غافل عوام کی نا مردم شناسی پر پے جنہیں عافیہ کی محبت سے سرشار اور باشعور عوام آگے لائی مگر انہوں نے اقتدار کی چھپن چھپائی کے کھیل میں عافیہ کے معاملے کو ثانوی حیثیت بھی نہ دی مگر جو عوام انہیں آگے لائے تھے وہ ہنوز انہی کے عشق میں گرفتار ہیں جو بجائے خود عوام کی منافقت کو عیاں کرتا ہے۔ کیا محض آہیں بڑھنے سے فتوحات کے پرچم بلند ہوتے ہیں اور زنداں کی سلاخیں مصلے پر بیٹھ کر اور سحر خیزی کر کے توڑی جا سکتی ہیں۔

نہیں نا ! آئیے پھر جماعت کے سنگ. شاید کہ دیر آید درست آید پر عمل ہی ہماری نجات کے لئے کافی ہو جائے، اللہ ہمیں بہترین قوت فیصلہ سے نوازے اور سچوں میں ہمارا نام لکھ لے۔ امین

آخر میں بیس سال تک استقامت کی دیوار، ابراہیم علیہ السلام کی پیروکار عافیہ کو سلام جو نہ دبی نہ جھکی، جس نے اسلام کی عزت کو صنف نازک کو کر بھی ایک ملت کا سہارا دیا۔ پوری ملت بہن کو نہ بچا سکی مگر ایک عورت نے اسلام کی لاج رکھ لی۔ بیٹیوں کے نصیب سے ڈرنے والی قوم! کیا تجھے اب بھی غیرت نہیں آئے گی!۔