ایک اور دھرنے کا سامنا

ہماری تاریخ میں یوم سیاہ بڑھتے جارہے ہیں، ہوسکتا ہے کہ کلینڈر پر اتنے سیاہ دھبے نظر آئیں ، کہ ہمیں پورا کلینڈر ہی سیاہ نظر آنے لگے، ایک سے بڑھ کر ایک سانحہ ہمیں پچھلے سانحے بھلا دیتا ہے، 12 مئی کا سانحہ کراچی میں ایک فوجی آمر کی طاقت کا مظاہرہ تھا، ایم کیو ایم نے اس دن اس فوجی آمر کا بھرپور ساتھ دیا اور پورے کراچی کو خون میں نہلا دیا۔ہم اس سانحے کو نہیں بھولے، لیکن اب مئی کے ماہ میں ہمیں ایک اور سیاہ دن 9 مئی کو منانا ہوگا، اس دن ایک سیاسی جماعت پی ٹی آئی کے کارکن ہماری پاک فوج کے ہیڈ کواٹر، جی ایچ کیو پر اور لاہور میں کور کمانڈر کے گھر پر حملہ کرتے ہیں، لوٹ مار کرتے ہیں، آگ لگاتے ہیں، پی ٹی آئی کے پرتشدد مظاہروں میں صرف راولپنڈی میں سرکاری اور نجی املاک کو دس کروڑ روپے کا نقصان پہنچایا ہے، دوسری طرف ‏دو روز میں ٹیلی کام سیکٹر کو ڈیڑھ ارب روپے سے زائد کا نقصان، حکومتی محصولات میں 57کروڑ کی کمی،لاکھوں افراد کی آمدن متاثر ہوئی۔ انٹرنیشنل پلیٹ فارمز پر پاکستانی فری لانسرز کو مشکلات کرنا پڑا، جو اس خراب حالات میں بھی ملک میں ڈالر لا رہے ہیں۔ پاکستان میں انٹرنیٹ کی بندش سے سے ہزاروں نوجوان جو بیرونی دنیا سے منسلک ہوکر کام کررہے ہیں،انھیں دشواری کا سامنا ہے۔ان مالی نقصان سے کہیں زیادہ اس پاک فوج کی ساکھ کو نقصان پہنچا ہے، جس پر ہم اب تک پھول نچھاور کرتے آتے ہیں۔

ہمارے ہاں سیاست میں تشدد کا عنصر کچھ نیا تو نہیں ہے۔ اے این پی کے بم دھماکوں پیپلز پارٹی کے پی آئی اے کے طیارہ اغوا چوہدری ظہور الٰہی خواجہ رفیق ظہور الحسن بھوپالی کا قتل الذوالفقار تنظیم کی دہشت گردی ،بے نظیر قتل پر پورے ملک میں تین دن تک لوٹ مار کراچی میں ایم کیو ایم کی مسلسل دہشت گردی حکیم سعید سے لیکر محمد صلاح الدین اور ہزاروں افراد کا قتل فوج کے میجر کلیم کا کیس چینلز پر فوج کے جرنیلوں کو سرعام گالیاں پھر ٹی ٹی پی کی دہشت گردی چھاؤنی آرمی ہیڈ کواٹر پر حملے سے پی ایس میں معصوم بچوں کا قتل عام اور اس کے بعد بھی آئے دن پرتشدد واقعات ہوتے رہتے ہیں۔

لیکن پھر یہ سیاست دان پاک و صاف ہوجاتے ہیں، سیاسی جماعتیں ان واقعات سے سبق نہیں سیکھتی اور سیاسی قیادت وقت آنے پر پھر اپنے کارکنوں کو پکارتی ہیں، انھیں احتجاج پر اکساتی ہیں، سیاسی کارکنوں کی ڈھال میں سیاسی لیڈر اپنا قد کاٹھ بلند کرتے ہیں۔ عظیم قوموں کے چھوٹے لوگ کسی بحران کی کسوٹی پر اپنے آپ کو کامیاب ثابت کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔پاکستان میں دھرنا سیاست نے اب مستقل اہمیت اختیار کرلی ہے، ہم کسی بھی مسئلہ کو اس وقت تک سیریس نہیں لیتے جب تک عوام سڑ کوں پر نکل نہ آئیں اور دھرنا نہ دیں۔ عمران خان کی سیاست میں دھرنے بہت اہمیت کے حامل ہیں، دھرنے جماعت اسلامی نے بھی دیئے ہیں، مولانا فضل الرحمن بھی اپنی قوت کا اظہار دھرنے سے کرنے والے ہیں، منیر نیازی کے شعر میں تھوڑی سی ترمیم کردی جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ،،

ایک اور دھرنے کا سامنا تھا منیر مجھ کو

میں ایک اور دھرنے سے نکلا تو میں نے دیکھا

اس ملک میں سیاست میں دخیل رہنا اور من پسندیدہ قیادت کو پالنا اسے اقتدار میں لانا اور اتارنا ایسا شوق ہے، جو بار بار کیا جاتا ہے، اس شوق کی بھاری قیمت ادا کرنے پر اس شوق سے تائب ہونے، اور آئندہ یہ نہ کرنے کا اعلان بھی ہمیں اس سے باز نہیں رکھتا ۔نواز شریف کی رخصتی کس انداز میں ہوئی، عدالتیں کیسے فیصلے کرتی رہی، پھر کیسے ایک لاڈلے کو لاڈ اور پیار سے لایا گیا۔ یہ سب کچھ اب تاریخ کا حصہ ہے۔ پھر عمران خان کی رخصتی جس عجلت اور جارحانہ انداز سے کی گئی، وہ بھی سب کے سامنے ہے، پی ڈی ایم میں مختلف الخیال سیاسی جماعتوں کو ایک کال پر کیسے جمع کرلیا گیا، اسمبلی میں کیا کیا تماشے نہ ہوئے، اور اب تک ہورہے ہیں، ملک کی معاشی بدحالی عروج پر ہے، کس نے اس پر توجہ دی ہے۔

سب کچھ واضح ہے کہ اس لڑائی میں سب نے اپنا حصہ ڈالا ہے، اور اب بھی ڈال رہے ہیں، سیاست دان تو سیاست ہی کرتے ہیں، انھوں نے تو پنترے ہی بدلنے ہوتے ہیں، کہہ کر مکر جانا ان کی عادت ہوتی ہے، لیکن ملک کی اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کو اپنا وقار ملحوظ رکھنا چاہیئے۔ ہمارے ریاستی اداروں کے شوق پورے ہی نہیں ہوتے۔ ملک تباہ ہوتا ہے تو ہوجائے۔ معاملہ جب خراب ہوتا ہے جب ان کے پالے، انھیں آنکھیں دکھانا شروع کرتے ہیں۔ اپنے پالنے والوں پر بھونکھنا اور بھنبھوڑ نا شروع کرتے ہیں۔ اس وقت ملک کی سلامتی اور جموریت کے سفید پرچم نکال کر امن کی دہائی دی جاتی ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ظلم بھی رہے اور امن بھی ہو۔ اس ملک کی عوام کو غربت اور افلاس کی چکی میں پس رہی ہے، ملک کا آئین اور قانون کہا ں ہے، عدالتوں کا احترام کہاں ہے، جب ادارے ایک دوسرے کے سمانے کھڑے ہوجائیں، تو ملک میں امن اور سلامتی ایک خواب بن جاتی ہے اور آج پھر ہمارے سامنے ادارے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے کبھی اس پر ہاتھ رکھنا کبھی اس پہ ہاتھ رکھنے کا کھیل کھیل رہے ہیں، جو ملک کو تباہی کی طرف لے جارہا ہے۔

حصہ
mm
عطا محمد تبسم سینئر صحافی، کالم نگار ہیں،وہ خرم بدر کے قلمی نام سے بھی معروف ہیں اور ان کئی کتابیں، قاضی حسین احمد انقلابی قیادت، محبتوں کا سفر رپوژ تاژ کاروان دعوت و محبت،سید مودودی کی سیاسی زندگی، پروفیسر غفور احمد،محبتوں کا سفیر سراج الحق عوام میں پذیرائی حاصل کرچکی ہیں، مارکیٹنگ کے موضوع پر ان کی تین کتابیں فروخت کا فن، مارکیٹنگ کے گر، اور مارکیٹنگ کے 60 نکات اور 60 منٹ ان کے ان کے اصل نام سے شائع ہوچکی ہیں۔وہ ایک ٹی وی چینل کی ادارت کی ٹیم کا حصہ ہیں۔جنگ، جسارت، نوائے وقت ایکسپریس، جہاں پاکستان میں ان کے کالم اور مضامین شائع ہوتے ہیں۔ وہ ایک اچھے بلاگر کے طور پر بھی جانے جاتے ہیں۔ بیمہ کار میگزین اور بیمہ کار ڈاٹ کام کے ایڈیٹر ہیں۔