گھریلومسائل کا ذکر بچوں کے سامنے،!

 

کیا والدین کو گھر کے مسائل بچوں کے سامنے بیان کرنے چاہیے؟

عقیلہ ! جو کچھ ہےیہ ہی ہے تمہارے ابا جو کما کر لاتے ہیں اس سے یہ دال روٹی مل جائے وہی غنیمت سمجھو میں تو مصیبت میں پھنس گئی ہوں پیٹ بھر کر کھانا بھی نہیں ملتا اوپر ان تینوں کے نخرے ہی ختم نہیں ہوتے۔ ماں کی بات سن کر تینوں بچے سہم گئے۔

نازیہ (شوہر سے) وہ آئی تھی تمہاری بہن بڑے گلے شکوے کر رہی تھی کہ بھائی اور بھابھی ہمارا خیال نہیں رکھتے میں بیمار تھی تو فون کرکے احوال بھی نہیں لیا۔ شوہر نے سامنے بیٹھے دونوں بچوں کی طرف دیکھا اور بات کو ٹالتے ہوئے کہا، اچھا چلو اس بات کو چھوڑو، زہیب آپ بتاؤ آج آپ کا پیپر کیسا یوا۔

نعمان۔ ( غصے س بیوی کو ) سارا گھر بکھیر کر رکھ دیا ہے کوئی چیز اپنی جگہ پر نہیں ملتی، بیوی! آتےہی شور مچانا شروع کر دیا میں سارا دن فارغ نہیں ہوتی سارا دن یہ دونوں بچے سر کھاتے ہیں اور پھر تم آکر باقی کثر پوری کرتے ہو( دونوں بچے ماں باپ کو روز اسی طرح لڑتے دیکھتے تھے)۔

یہ صرف دو تین جھلکیاں میں نے آپ سے شیئر کی ہیں جو مجھے اپنے اطراف نظر آئیں۔ کیا والدین کا بچوں کے سامنے اس طریقے سے اپنے مسائل کو بیان کرنا صحیح ہے؟

یقیناً ہر گھر میں کچھ نہ کچھ مسائل ہوتے ہیں اور یہ بھی صحیح ہےکہ اکثر میاں بیوی کے درمیان بھی نوک جھونک ہوتی رہتی ہے لیکن اس طرح بچوں کے سامنے کھلے عام لڑنا جھگڑنا یا مسائل کو بیان کرنا درست ہے؟ اس قسم کے منفی رویے بچوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔

آپ اپنے مسائل کو اس طرح مثبت انداز میں ان کے سامنے پیش کریں کہ انہیں آپ پر فخر بھی محسوس ہو اور انہیں مسائل کا تھوڑا بہت اندازہ بھی ہوجائے۔

مثلاً میری ایک دوست جو خود بھی ملازمت کرتی تھی لیکن آمدنی بہت کم تھی اس تنگ دستی کے باوجود اسکے چاروں بچے بہترین اسکولوں میں پڑھتے تھے وہ بچوں کے سامنے کبھی کبھار چند جملے بولتی کہ ماشاء اللہ ہماری آمدنی بہت اچھی ہے لیکن ہمارے لیے آپکی تعلیم کی سب سے زیادہ اہمیت ہے اس لیے آپ بچوں کو ہم بہترین اسکولوں میں تعلیم دلوا رہے ہیں ماشاء اللہ ہماری بنیادی ضروریات پوری ہو رہی ہیں ہم بھی عیش والی زندگی گزار سکتے ہیں لیکن ہم آپکی تعلیم پر خرچ کرنا بہتر سمجھتے ہیں آپ کامیاب ہو گئے تو گاڑی بنگلہ سب مل جائے گا۔ ان جملوں سے اسکے بچے ماں باپ کی دل سے قدر کرنے لگے اور حقیقت میں آج وہ بہترین زندگی گزار رہیں ہیں۔

اس طرح انہیں بچپن میں کبھی احساس کمتری بھی نہیں ہوئی کہ ہم کسی سے کم ہیں اور آج وہ اپنے والدین کے اس طریقہ کار پر فخر بھی کرتے ہیں جبکہ اس کے برعکس میں نے ایک خاتون کو بچوں کے سامنے شوہر کی کم آمدنی اور سسرال کے رویے کا رونا روتے دیکھا جس کی وجہ سے اس کے بچوں میں منفی رویے آج بھی نمایاں ہیں لہذا والدین کو بچوں کے سامنے اپنے مسائل کے بارے میں منفی طریقے سے شور مچانے سے پرہیز کرنا ضروری ہے۔