ہیں تلخ بہت

ٹریفک کی گہما گہمی تھی سورج سر کے عین اوپر گرمی کی شدت بڑھا رہا تھا۔ وہ پسینے میں شرابور کدال کندھے سے لگائے لال سرخ آنکھوں سے آتی جاتی گاڑیوں کو دیکھ رہا تھا وہ دیہاڑی کا مزدور تھا جس دن مزدوری مل جاتی گھر کا چولہا جلتا، پیٹ کا ایندھن کچھ سکون پاتا۔ اس مہنگائی کے دور میں سات افراد پر مشتمل کنبہ پالنا واقعی جوئے شیر لانے کے مترداف تھا۔ اس کی بیوی سکینہ دو چار گھروں میں کام کرتی تھی سو زندگی کی گاڑی رینگ رہی تھی۔ کیونکہ صرف پیٹ پوجا تو لوازمات زندگی نہ تھے بجلی، گیس کے بل ، مکان کا کرایہ، تن ڈھانپنے کو کپڑے ارزاں ترین ہی سہی مگر غریب کے لیے وہ بھی بہت بڑا خرچہ تھا۔ اس کے علاؤہ بوڑھا بیمار باپ جس کی زندگی کی سانسیں دوا سے جڑی تھیں، بچے گورنمنٹ اسکول میں پڑھتے تھے مگر پھر بھی کچھ نہ کچھ تو انھیں بھی ضرورت ہوتی۔ وہ سوچوں کا انبار لیے سڑک کنارے سر جھکائے بیٹھاتھا۔ آج صبح سے کوئی مزدوری نہ ملی تھی کیا ہو گا کھانے کو کچھ تھا نہیں اور ابا کی دوائی بھی ختم تھی ساری رات کھانستا رہا۔ منے کی چپل ٹوٹ گئی تھی اور کھیل کے دوران کیل پاؤں میں چبھ گئی تھی۔ اس نے ایک نظر آسمان کی طرف اٹھائی۔ دو آنسو اس کے پچکے گالوں پہ لڑھک گئےجنھیں اس نے بے دردی سے رگڑ ڈالا۔ آج اسے کوئی مزدوری نہ ملی۔

سکینہ کام پہ گئی تو اسے چھٹی دے دی گئی وہ تو سوچ کر گئی تھی آج بیگم صاحبہ سے تھوڑے پیسے ادھار لے کر چاچے کی دوا اور منے کی پلاسٹک کی سو روپے والی چپل لے لے گی۔ اور کچھ بچا کھچا کھانا پیٹ پوجا کو مل جائے گا مگر بیگم صاحبہ نے دروازے سے ہی کہہ دیا ارے پاگل آج تو تمہارا دن ہے مزے کرو چھٹی مناؤ۔ اس نے بے بسی سے ایک نظر آسمان کی طرف اٹھائی۔ دو آنسو اس کی سلگتی آنکھوں سے لڑھک کر اس کے زرد گالوں پر پھیل گئے۔ اس کے کانوں میں بیگم صاحبہ کی کھنکتی آواز گونج رہی تھی۔ آج تمہارا دن ہے مزے کرو۔ وہ تھکے قدموں سے واپسی کے سفر پر گامزن ہوئی۔ آج تمہارا دن ہے مزے کرو۔ آج تمہارا دن ہے مزے کرو۔ ایک ہی بازگشت اس کے کانوں میں گونج رہی تھی۔

سڑک کنارے نزیرا اب تھک کر لیٹ گیا تھا کدال اس کے اوپر دھری تھی۔ جونہی کوئی گاڑی اس طرف آتی وہ تیزی سے لپکتا کہ شاید کوئی مزدوری مل جائے۔ سامنے سے آتی سفید مزدہ سے اسے کچھ امید بندھی۔ صاحب کام دو گے؟ اس نے امید بھری نظروں سے پوچھا۔ ارے آج تمہارے کام کا نہیں آرام کا دن ہے بھائی۔ جانتے نہیں آج لیبر ڈے ہے۔ مزدوروں کا عالمی دن۔ اور گاڑی فراٹے بھرتی آگے بڑھ گئی اور وہ حیران سا کھڑا رہ گیا۔ مزدوروں کا عالمی دن۔ مزدوروں کا عالمی دن۔ ایک پھیکی سی مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پہ آ کر رک گئی۔ مزوروں کے عالمی دن پر بھی مزدور فاقوں سے ہی رہ گیا۔ یہ سوال ہے ہمارے لیے اور عالمی دن منانے والوں کے لیے بھی۔