رشتوں کو سنبھالنا بھی ایک فن

ذکیہ ! کس سے بات کر رہی تھیں کوئی دوست تھی؟

عمرانہ ! نہیں بھابھی وہ میں اپنی بڑی بھابھی سے بات کررہی تھی عید مبارک کہنے کے لئے میں نے انہیں فون کیا تھا۔

زکیہ (منہ بناتے ہوئے) بڑی بھابھی، وہی نا جس نے تمہاری شادی میں بھی شرکت نہیں کی تھی، سنا تھا الگ گھر کے لئے بھی اس نے تمہارے بھائی کو اکسایا تھا واہ بھئی واہ۔

عمرانہ کو اپنی جیٹھانی کی بات گرچہ بری لگی لیکن اس نے مسکراتے ہوئے کہا بھابھی وہ میرے بڑے بھائی کی بیوی ہیں میرے لئے قابل احترام ہیں پھر چھوٹی بڑی باتیں تو خاندانوں میں ہوتی رہتی ہیں ہوسکتا ہے انہیں اس وقت ہماری کوئی بات بری لگی ہو اسی لیے میری شادی میں شرکت نہ کرسکیں۔

زکیہ ! تو آج ان کا موڈ کیسا تھا؟

عمرانہ ! بہت اچھا بلکہ انہوں نے ناصرف مجھ سے پیار سے بات کی بلکہ بہت سی دعائیں بھی دیں۔

زکیہ ! تو تم خوش ہوگئیں، دل میں تو انکے کھوٹ ہوگا ؟َ۔

عمرانہ کی شادی کو دو مہینے ہی ہوئے تھے وہ اپنی جیٹھانی کی طبعیت سے تھوڑا بہت تو واقف ہو چکی تھی اس لیے ہمیشہ درگزر سے کام لیتی تھی لیکن آج موقع اچھا تھا اس لئے اس نے مسکرا کر کہا بھابھی آپ بیٹھیئے نا کھڑی ہیں، آج آپ نے شیر خورمہ بہت اچھا بنایا تھا مجھے بھی سکھایئے گا۔ ویسے میں نے ان دو مہینوں میں دیکھا ہے کہ آپ کھانا بہت عمدہ بناتی ہیں۔

زکیہ ! خیر تم بھی اچھا بنالیتی ہو۔

عمرانہ ! شکریہ بھابھی آپکی تعریف کرنے سے میری حوصلہ افزائی ہوئی اور جی خوش ہوگیا اپنوں کی یہی تو خوبی ہوتی ہے ہمارے رویئے، ہمارے چند میٹھے جملے، ہمیں ایک دوسرے کے قریب لاتے ہیں اب یہی دیکھیں کہ آپ کے یہ دو جملے سن کر مجھے آپ اپنی بڑی بہن کی طرح لگ رہیں ہیں۔

زکیہ ! تو کیا پہلے نہیں لگ رہی تھی۔

عمرانہ (زور سے قہقہہ لگاتے ہوئے) پہلے جیٹھانی لگتی تھی آج عید کے دن مجھے احساس ہورہا ہے کہ میری ایک بڑی بہن نہیں بلکہ دو ہیں۔

ذکیہ کو اپنی غلطی کا کچھ احساس ہونے لگا۔ تم خود بھی میرے لئے چھوٹی بہن کی طرح ہو۔

عمرانہ ! بلکہ بھابھی آج اس عید کے دن مجھے دو خوشیاں ملی ہیں ایک میری بھابھی کی طرف سے اور ایک آپ کی طرف سے (وہ اپنی جگہ سے اٹھی اور بھابھی سے گلے لگ گئی تھینک یو بھابھی۔

یہ حقیقت تھی کہ عمرانہ کے تھوڑے سے جھکنے کی وجه سے اسے دو رشتوں کا پیار مل گیا تھا اگلے دن اسکی بھابھی زرینہ کا فون آیا اسے اسکی فیملی کے ساتھ دعوت دینے کے لئے جسے عمرانہ کی ساس نے بھی قبول کیا، دوسری جانب عمرانہ کی والدہ جو اس عید پر بیٹے اور بہو کی دوری اورناراضی کی وجہ سے اداس تھی وہ بھی خوش ہوگئیں۔

عموماً دیکھا گیا ہے کہ ہمارے رویوں کی کڑواہٹ ہمیں رشتوں سے دور لے جاتی ہےجبکہ در گزر اور ذرا سے جھکاؤ سے رشتے پروان چڑھتے ہیں۔

ویسے رشتوں کو سنبھال کر اور جوڑے رکھنا بھی ایک فن ہے جس نے اس فن میں مہارت حاصل کر لی گویا اس نے تمام رشتوں کی محبت اپنے دامن میں سمیٹ لی۔