حکومتی اسکیمیں یا باعزت روزگار

ہر دوسرے بندے کے منہ سے” آٹا میسج“کا سن ہی نہیں رہی تھی بلکہ جگہ جگہ” فری آٹا اسکیم“ کے اشتہار ، آتے جاتے سڑکوں پر مرد و خواتین کی لمبی قطاریں دیکھ بھی رہی تھی۔ ایک زرعی ملک کے باسیوں کو روٹی کے لیےمنگتا بنا دیکھ کر سچ مانیے دل خون کے آنسو روتا ہے۔

اے حکمرانو! تمہیں رب ہدایت دے، تمہیں کیا ہو گیا ہے؟ کوئی پیسوں کا بھکاری بنا گیا تو کوئی روٹی، کپڑے کے سوالی تیار کر رہا ہے۔ نہ تو اس ملک میں سارے معذور ہیں اور نہ ہی ہماری ساری عورتیں بیوہ ہو گئی ہیں۔ پھر کیوں یہ تماشے لگا رکھے ہیں؟ نہ روزے کا احترام نہ نمازوں کا ہوش صبح سے شام تک دس کلو آٹے کے بھکاریوں کی لمبی لائینیں ہیں۔ بھکاری ہی کہوں گی کیونکہ سفید پوش طبقہ تو آج بھی شرم کے مارے گھروں میں بند ” پانی سے افطار“ اور” صبر سے سحری“ کر رہا ہے۔ جہاں ماں بھی  محنت کش  اور باپ بھی  کم آمدن  لیکن عزت دار ہے اور اپنی عزت کا بھرم ساتھ والے گھر تک نہیں کھولنا پسند کرتا کجا کے پورے علاقے میں وہ بھرم کھل جائے۔ اس کے بچے آج بھی باسی روٹی پر ” الحمدللہ “ کہتے ہیں اور کسی پر بھوک ظاہر نہیں کرتے۔

جن کی نشانی خدا نے بتائی کہ وہ لپٹ کر نہیں مانگتے بلکہ تم ان کو ان کے چہروں سے پہچان لو گے۔ اور حقیقتاً وہ اپنی ساری عرضیاں اسی مالک کے حضور رکھ رہے ہوتے ہیں جو شاہ و گدا کو نوازنے والا ہے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ رب تعالیٰ نے ان کا حصہ صاحب ثروت کے مالوں میں دو مدات” مساکین اور غارمین“ کی صورت مقرر کر دیا ہے۔ پہلی قسم جس کی آمدنی کم اور اخراجات زیادہ ہیں۔ دوسری قسم جو بیچارے قرض کے شکنجے میں ہیں لیکن ادائیگی کی صورت اس لیے نہیں بن پا رہی کہ وسائل ہی موجود نہیں۔

ہو یہ رہا ہے کہ چاہے ملکی پیمانے پر کوشش ہے یا انفرادی پیمانے پریہ طبقہ مسلسل نظر انداز ہو رہا ہے۔ نتیجتاً سر ڈھانپنے کے چکر میں پاؤں اور پاؤں ڈھانپنے کے چکر میں سر ننگا ہوئے چلا جا رہا ہے۔ لیکن کوئی ہمدرد وغمخوار ہے نہ کوئی پرسان حال۔

میرے وطن کے اہل فکر لوگو خدارا، بھکاریوں کی ان لمبی قطاروں کے خلاف آواز اٹھائیے۔ملک میں منصفانہ الیکشن کروانے کی بجائے ووٹ کے لیے ان سستے اور چیپ طریقوں کا بائیکاٹ کروائیے۔ حکمرانوں کے سامنے آواز بلند کیجئے کہ وہ ہمارے نوجوانوں کو باعزت روزگار فراہم کرے۔ اگر مدد کرنا مطلوب ہے تو باعزت طریقے سے کیجئے۔

وہ منظر آنکھوں سے جدا نہیں ہوتا کہ” جب سردار مدینہ شاہ دوجہاں صلی اللہ علیہ والہ وسلم مسجد نبوی میں تشریف فرما ہیں اور ایک شخص اپنی غربت کا اظہار کرتا ہے ۔سرور عالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سوال کرتے ہیں” تیرے گھر میں کیا ہے؟ “جواب ملتا ہے” ایک مٹی کا پیالہ اور ایک اوڑھنے کا کمبل“۔پھر حکم ہوتاہے وہ لے کر آؤ۔ جب وہ شخص لیکر آتا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم حاضرین میں ان دونوں چیزوں کی بولی لگاتے ہیں۔ دو درہم میں وہ بک جاتی ہیں تو ان دو درہم سے کلہاڑی اور دستہ منگواتے ہیں۔انہیں ٹھوکتے ہیں اور اس شخص کے ہاتھ میں دے کر کہتے ہیں” جاؤ اور محنت کرو میں روز قیامت تمھارے چہرے پر مانگنے کا داغ نہ دیکھوں “

اور اے حکمرانو! تم کیا کر رہے ہو؟ تم کہتے ہو ایک رکشہ چلانے والا، ایک مزدور، ایک فیکٹری ملازم، ایک ٹھیلے والا اپنی دیہاڑی چھوڑ کر پورا دن آٹے کا سوالی بن کر کھڑا رہے۔  تم اسےہمدردی سمجھتے ہو جو اصل میں ذلت ہے۔

ایک دوسرا منظر بھی نگاہوں سے اوجھل نہیں ہوتا، روم و فارس کا فاتح رعایا کے دکھ بانٹنے نکلا ہے ۔کیا دیکھتا ہے کہ غریب عورت ہانڈی چڑھائے روتے بلکتے بچوں کے سونے کی منتظر ہے، دریافت کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ ہانڈی کے نام پر پتھر چڑھا رکھے ہیں تاکہ بچے انتظار کرتے کرتے سو جائیں۔ ماجرا جان کردل غم سے چور اور لبوں پر استغفار جاری ہوجاتا ہے۔انہی قدموں پلٹتے ہیں اور کمر پر اناج کا بورا اور دیگر سامان ضرورت لاد کر لاتے ہیں اور اسے دیتے ہیں۔

ایسے ہوتے ہیں حکمران، اِسے کہتے ہیں رعایا گیری اور مدد کرنا۔ کبھی سیلاب کی تباہ کاریاں، کبھی زلزلہ اور بے موسمی بارشیں اور کتنے ہلاوے چاہییں جاگنےاور سمجھنے، بوجھنے کے لیے۔

خدارا ! اب بھی سنبھلیے، ہوش کے ناخن لیجیئے، عدل کیجئیے اور عوام کے پرسان حال بنیے۔ ان کی عزت نفس خرید کر اپنی بادشاہی نہ چمکائیے۔

میری اپنے اہل ثروت ہم وطنوں سے بھی درخواست ہے کہ اس مرتبہ زکوٰۃ صرف ایک مد میں نہیں آٹھوں کی آٹھوں مدات میں تقسیم کیجئے ۔شاید کہ ایسا کرنے سے ہمارے وطن میں بھی وہ دن آئے جب پاکستان کی گلیوں میں کوئی زکوٰۃ لینے والا نہ ملے۔