آٹا جیون گھاٹا ‎

اماں کہتی تھیں کیا زمانہ تھا سل پر چٹنی پیسی ،خشک روٹی کے ٹکڑے گیلے کیے،مل کر کھائے نہ صرف پیٹ بھرا بلکہ ایسا سواد جو مرغ مسلم بھی نہ دے سکیں۔ اور یہ چٹنی روٹی کھانے والوں کی ہڈیاں مضبوط تھیں ،عمریں دراز تھیں۔

گاہے زمانے کے طور بدلے،جہاں دیسی کھانوں میں غیر معیاری مصنوعات کا اضافہ ہوا وہیں جنک فوڈز نے صحت کے گھمبیر مسائل کھڑے کیے۔اور آج نت نئے ناموں کے ساتھ کیا کچھ پیٹ میں انڈیلا جا رہا ہے کہ پیٹ کو محاورتا نہیں حقیقت میں اپنے دوزخ ہونے کا گمان ہوتا ہوگا۔مگر کھانے کے نام پر ان وباوں کو کھانا بھی پیسے والوں کے چونچلے ہیں۔

غریب تو آج بھی اسی آٹا لینے والوں کی قطار میں کھڑا ہے جس کے متعلق عوامی شاعر نظیر اکبر آدمی نے کہا تھا کہ!

آٹا نہیں ہے چھلنی سے چھن چھن گرے ہے نور

پیڑا ہر ایک اس کا ہے برفی و موتی چور

آٹا جو ہمیشہ ہی سے زندگی کی علامت سمجھا جاتا ہے، غریب کے لیے یہی سب سے بڑی نعمت ہے اور وہ آج بھی اسے چٹنی،اچار، پتلی دال یا صرف چائے کے ساتھ کھا کر بھی کھڑا ہو سکتا ہے اور امور زندگی کو نمٹانے چل پڑتا ہے۔

مگر یہ کیا ستم ہوا کہ وہی آٹا جو زندگی کی علامت ہے غریب کی موت بن گیا ہے۔مفت آٹے کی لائن میں زندگی مانگنے والا آئے دن کوئی نہ کوئی موت کا شکار ہورہا ہے۔

وہ آٹا جس کو گوندھ کر ایک خاص طریقے سے گزار کر چندا ماما جیسی گول شکل کی روٹی آگ پر پکائی جاتی ہے تو گویا اس کی سوندھی مہک سے بھوک جاگ اٹھتی ہے اور شکم سیری کی دعوت دینے لگتی ہے کہ!

ہرگز کسی طرح نہ بجھے پیٹ کا تنور

اس آگ کو مگر یہ بجھاتی ہیں روٹیاں

لیکن آج قطار میں لگے فاقہ کشوں کے پیٹ کی آگے بجھے نہ بجھے ،زندگی کا دیا ضرور بجھ رہا ہے۔یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے لیے شب دیگ اور متنجن نہیں چاہتے بلکہ صرف وہ روٹی چاہتے ہیں جو ان کے پیٹ کا تنور بجھا کر ان کو کار دنیا کے لیے تیار کر سکے۔

ان میں مرتی ہوئی جینے کی آرزو پھر سے جگا سکے،مگر آج ، انواع و اقسام کے لوازمات کا ماحضر کرنے والے غریب کے منہ سے روٹی کا نوالہ بھی چھین کر لے گئے ہیں، اور اس نوالے نے نہ جانے کتنوں کی بچھی کچھی ،لٹی پٹی زندگی بھی نگل لی۔

روٹی نہ پیٹ میں ہو تو پھر کچھ جتن نہ ہو

میلے کی سیر خواہش باغ و چمن نہ ہو

بھوکے غریب دل کی خدا سے لگن نہ ہو

سچ ہے کہا کسی نے کہ بھوکے بھجن نہ ہو

اللہ کی بھی یاد دلاتی ہیں روٹیاں

نہ جانے کیوں بار بار نظیر اکبر آبادی یاد آجاتے ہیں ،دل مضطرب ہو کر یہ پکارے جاتا ہے کہ یہ جو قطاروں میں بٹ رہا ہے،کہنے کو یہ آٹا ہے

لیکن یہ تو جیون گھاٹا ہے۔