کیا کھو گیا

عصر کا وقت ہو چکا ہے۔ چند کھجوریں اور پانی ہی سحری کی غذا تھی اب افطار میں کچھ ہوگا یا نہیں اس کی فکر نہیں ہے۔ صدقہ و غلہ بانٹا جارہا ہے اور یہ خیال بھی نہیں آتا کہ اپنے افطار کے لیے ہی کچھ رکھ لیا جائے۔ یہاں تو کئی اہم معاملات کو دیکھنا ہے۔ رمضان میں غزوات کی تیاری بھی ہو رہی ہے۔ خارجی امور نمٹانے جا رہے ہیں۔ بیماروں کی عیادت بھی کرنی ہے۔ جنازے میں شریک بھی ہونا ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے تذکیہ نفس کی مجلسیں بھی جاری ہیں۔ قیام اللیل سے بھرپور راتیں ہیں۔ ان سب کاموں کے لیے یہ شب و روز تو انتہائی مختصر معلوم ہوتے ہیں لیکن یہ وقت کی برکتیں ہیں۔ یہ رحمت اور نور ہے جو ہر طرف بکھرا نظر آ رہا ہے۔ یہ ایثار ہے کہ محض دو کھجوریں پاس ہیں تو کسی دوسرے کی تلاش ہے جس کو افطار کے لیے کھجور پیش کی جاسکے۔ آسائشوں کے بہت ڈھیر میسر نہیں ہیں لیکن شکر کا یہ عالم ہے یہ پاؤں رات بھر کی عبادت کرتے نہیں تھکتے۔ دن پھر بھی جسم و جاں کو اللہ کی راہ میں لٹاتے ہیں۔ یہ تصویر کا ایک رخ ہے۔

پھر تصویر کا ایک رخ یہ بھی ہے۔ عصر کا وقت ہو چکا ہے۔ سڑکوں پہ ٹریفک رواں دواں ہے۔ ہر شخص جلدی میں ہے۔ بازاروں میں چہل پہل ہے۔ چوک چوراہوں پہ بھی بھرپور رونق ہے۔ کہیں پھل کے ٹھیلے ہیں۔ کہیں رول سموسے تلے جا رہے ہیں۔ لوگوں کی گہما گہمی ہے۔ کوئی افطار کی خریداری میں مصروف ہے۔ کوئی اس رونق سے لطف اندوز ہونے کے لیے چہل قدمی کررہا ہے اور کوئی اس ٹریفک میں پھنسا گھر جلدی پہنچنے کی فکر میں مبتلا ہے۔

گھروں میں بھی افطاری کی تیاری جاری ہے۔ کہیں ٹی وی پہ تلاوت چل رہی ہے اور کہیں کچھ اور اسلامی پروگرام کے نام پہ جاری ہے۔ دسترخوان سجے ہیں۔ انواع و اقسام کے کھانے موجود ہیں لیکن ان سب کے باوجود کچھ ہے جو اب بھی کم ہے۔ اتنی رونق ہونے کے باوجود بھی نور کم ہی ہے۔ وہ برکتیں نظر نہیں آرہیں جو مقصود ہیں۔ کل اور آج میں کچھ تو ہے جو زیادہ ہے کچھ تو ہے جو کم ہے۔

لوٹ جا عہد نبوی کی جانب رفتار جہاں

پھر تیری پسماندگی کو ارتقاء درکار ہے