قیام پاکستان سے لے کر آج تک اس ملک میں 14 سے زائد تعلیمی پالیسیاں نافذ ہوئی ہیں لیکن اسک باوجود ہمارا ملک جنوبی ایشیا کا سب سے ناخواندہ ملک کیوں ہے ،اس کا جواب آخر کون دے گا درحقیقت ہمارا نظام تعلیم انگریز کا بنایا گیا ہے۔ جس کا بانی لارڈ میکالے ہے اور جس نے یہ کہا تھا کہ ! میرا نظام تعلیم پڑھ کر مسلمان مسلمان نہیں رہ سکتا اور اس حقیقت کو جانتے ہوے بھی ہم نیا اور جدید تقاضوں سے ہم آہنگ نظام تعلیم وضع کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کر رہے، پاکستان کے تعلیمی نظام کی خامیوں پر نظر ڈالی جائے تو ہم یہ بات اچھی طرح جان لیں گے کہ آج تک ہمارے ملک کو کوئی معیاری نظام تعلیم میسر نہیں ہوا اور دکھ تو اس بات کا ہے کہ اگر حکومت نے اس معاملے میں کوئی کوشس کی بھی تو اس کا نتیجہ پہلے سے بھی برا نظر آیا۔
ہم سب اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ ہر قوم کی تعمیر و ترقی کا انحصار اس کی تعلیم پر ہوتا ہے تعلیم ہی قوم کے اندر احساس وشعور کو نکھارتی ہے علم کی افادیت کو سمجھنے کے لیے نئی نسل کو مدد حاصل کرنے کے لیے قرآ ن وحدیث سے بھی ثابت ہے اور مسلمان کے لیے علم ایک عظیم ترین خزانہ ہے اور اس بات میں کوئی شک نہیں کہ علم میں ہی آخرت اور دنیا کی کامیابی پوشیدہ ہے ہمارا مذہب ہمیں درس دیتا ہے کہ علم حاصل کرو ماں کی گود سے قبر تک، دنیا بھر کے تمام ممالک کے نظام تعلیم کا مطالعہ کرنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ہمارے ملک کے نظام تعلیم کے غیر معیاری ہونے میں بنیادی وجہ کیا ہے،اور وہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں نظام تعلیم کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے جو اخراجات درکار ہیں وہ مہیا نہیں کیے جاتے جبکہ دنیا کے تمام ممالک اس معاملے میں دل کھو ل کر خرچہ کرتے ہیں لیکن ہمارے ملک میں ایسا بلکل بھی نہیں ہے۔
ہمارا نظام تعلیم مختلف جہتیں رکھتا ہے اور اسکے دو پہلو نمایاں ہیں دینی وعصری:
پہلے دینی تعلیم کامطالعہ کرتے ہیں آج بھی دینی مدارس میں استاد شاگرد کے باہمی تعلق اور احترام کی روایت موجود ہے ان کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ ان کے اخراجات اسکول کالج اور یونیورسٹی سے دس فیصد کم ہیں جبکہ خواندگی میں اضافے کے سلسلے میں ان کی خدمات مثالی ہیں وسائل کی عدم فراہمی کے باعث یہ مدارس جدید سہولتوں سے محروم ہیں انکی ایک بڑی اور خوبصورت روایت یہ ہے کہ انہوں نے دینی روایات اور خصوصیات کو غیر اسلامی تہذیب اور فکری روایات سے دور رکھا اور اصلاح اور افعال کے لیے سرگرم عمل ہیں۔ آج بھی دینی مدارس میں جو نصاب پڑھایا جاتا ہے یونیورسٹی میں پڑھایا جانے والا ایم اے کی سطح والے نصاب کا صرف ایک حصہ ہے۔
عصری تعلیم:
اساتذہ میں اور طلبا میں فاصلہ بڑھنے کی پہلی وجہ ٹیوشن کی روایت ہے انگریزی کو وجہ فضیلت سمجھ لینے کی وجہ سے نہ تو اس کی سمجھ آتی یے نہ علم پر قدرت ہوتی ہے،اس بات سے بھی انکار نہیں کہ بعض علوم میں کچھ ادروں نے اپنا وجود بیرون ملک منوایا یے اور یہ ایک بڑی کامیابی ہے اور بہت سے شعبوں میں ہمارے پاکستانی ماہرین ہاتھوں ہاتھ لیے جاتے ہیں مگر دوسری طرف پرائیویٹ اسکول و کلج طبقاتی تقسیم پیدا کر رہے ہی ابتدائی تعلیم سے میٹرک تک نصاب درآمد شدہ ہے جو ہماری اخلاقی اور تہذیبی روایات سے بلکل مختلف ہے اور سوچا جایے تو یہ ایک خطرناک صورت حال ہے عربی اور فارسی زبان سے بلکل بے توجہی برتی جارہی ہے جبکہ ہمارے ادب کا ایک دقیق حصہ ان میں ہی موجود ہے۔
امتحانات کا نظام مکمل طور پر اصلاح طلب ہے ان سب امور کو دیکھتے ہوئے یہ ثابت ہوا کہ صورت حال کچھ خوش کن نہیں اور ہمیں اپنے نظام تعلیم پر سنجیدگی سے غور و فکر کرنا ہوگا اور اپنے تعلیمی نظام کے امور کا جائزہ لینا ہوگا اور سوچ و بچار سے کوئی حل تلاش کرنا ہوگا اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے ملک کی کریم دوسرے ملکوں میں نہ جائے بلکہ ہم خود اپنے ذہین طالب علموں کی صلاحیتوں سے مستفید ہوں تو ہمیں اس معاملے میں خاص توجہ دینی ہو گی اور اس کے لیے عوام اور حکومت دونوں کو تعاون کے ساتھ اپنا اپنا کردار ادا کرنا پڑیگا اور سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ ہم دور جدید کے نظام تعلیم کی ضروریات کو ذہن میں رکھتے ہوئے ایسے نظام کو فروغ دیں جو ہماری دینی اور اخلاقی روایات کے عین مطابق ہو ہم دوسرے معاملات میں تو مغربی تہذیب کی تقلید کرتے ہیں مگر جن باتعں کی تقلیں ہمارے لیے فائدے مند ہے اس کو نظرانداز کرتے ہیں جبکہ مغربی لوگ ہماری روایات کو اپنا کر آج مستفید ہو رہے ہیں اور ترقی کی منازل طے کرتے جا رہےہیں جبکہ ہم دوسروں کی تقلید میں خود اپنا آپ بھی بھلا بیٹھے ہیں بلکل ایک مثال کی طرح ! کوا چلا ہنس کی چال اور خود اپنی بھی بھول گیا۔
حکومت کو چاہیے کہ اس معاملے میں کوئی بہترین پیشرفت کرے تاکہ ملک اس غیر معیاری نظام تعلیم کے بحران سے بچ کر آگے ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے آسمان کی اونچایوں تک اسلامی مملکت پاکستان کا نام روشن کر کے دکھا سکے اور دوسرں کی تقلید سے بہتر ہے کہ ہم غلطیوں کا جائزہ لے کر انہیں سدھارنے کی کوشس کریئ اور ایک ایسا نظام تعلیم رائج کرنے میں معاون کردار ادا کریں جو دین اسلام کے دائرے کے اندر ہو اورجو ہر طرح سے ایک مکمل اور مثالی ہو تاکہ ہمارے طالب علموں کو بیرون ملک اعلی تعلیم کے لیے نہ جانا پڑے اور وہ ملک سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد ملک کی خدمت کر سکیں اور ملکی تعمیرو ترقی میں دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کا باعث بن سکیں، آمین ثم آمین ۔