تقویٰ کو تھامیں

روزے صرف اِس آخری اُمت پر ہی فرض نہیں کیے گئے بلکہ ہر نبی کی اُمت پر فرض کیے گئے۔چونکہ روزے کی روح تقویٰ ہے اور تقویٰ ہی گناہوں سے بچاتا ہے لہٰذا روزے کی قبولیت کی توقع اس وقت تک نہیں کی جا سکتی جب تک ہمارا دل گواہی نہ دے دے کہ ہم نے شعوری طور پر ہر غلط بات سے اجتناب کیا ہے۔

ایمان اور احتساب کے ساتھ روزے رکھنے پر خوشخبری تو ہے مگر سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایمان اور احتساب سے روزہ رکھنے سے کیا مراد ہے؟ کیا صرف صبح سے شام تک خالی پیٹ رہنا ہی ایمان ہے اور نمازوں کی گنتی پوری کر دینا ہی احتساب ہے؟جی نہیں! اگر آپ روزہ رکھ کر بغض دل میں پالے رہتے ہیں تو یہ ایمان و احتساب والا روزہ نہیں، اسی طرح اگر آپ جھگڑا کرنے سے باز نہیں آتے، غلط زبان استعمال کرتے ہیں، دوسروں کو سہولت دینے کی بجائے کام بڑھانے کی طرف دھیان رکھتے ہیں،غیبت کرتے ہیں؛ غرض کوئی بھی برا کام کرتے ہیں تو بجا کہ آپ خورد و نوش کی اشیاء سے پیٹ نہیں بھرتے مگر اپنے برے فعل، عمل اور رویے کے باعث آپ روزے سے بھوک پیاس کے سوا کچھ حاصل نہیں کر پاتے۔

روزے سے تقویٰ کا حصول تبھی ممکن ہے جب اسے ایمان اور احتساب سے رکھا جائے.ایسے روزے کا کیا فائدہ جو انسان کو بھوک پیاس کے سوا کچھ نہ دے اور ایسا قیام کرنے والے بھی دراصل قابل رحم حالت میں ہیں جن کا قیام انہیں پرہیزگار نہ بنا سکے۔

جب روزہ اللہ کے لیے ہے اور اجر بھی اللہ نے دینا ہے تو عمل کو اللہ ہی کے لیے خالص نہیں ہونا چاہیئے؟کیا اللہ آپ کے نفس کی بددیانتیوں سے بے خبر ہے؟کیا اسے نہیں معلوم کہ آپ کی سرگرمیاں تمام دن کیا رہیں، آپ نے کس کس کا حق تلف کیا، کس کس پر زیادتی کی، کس کس سے نا حق جھگڑے، کس کس کو ستایا۔

آپ روزہ رکھنا چاہتے ہیں اور اس سے پرہیزگار بننا چاہتے ہیں تو اپنا احتساب ضرور کیا کیجئے،اگر آپ ایک خاتون ہیں اور آپ کسی بھی دوسری خاتون کے ساتھ ایک جگہ پر مل کر کوئی کام سر انجام دے رہی ہیں تو اگر تو آپ دوسری کے لیے سہولت پیدا کرتی ہیں،اپنے حصے کی ذمہ داری بھی بخوبی نبھاتی ہیں اور دوسری کے لئے بھی آسانی پیدا کرتی ہیں تو گویا آپ تقویٰ کی حالت میں ہیں، اس کے بر عکس اگر آپ اپنی ذمہ داری یوں نبھاتی ہیں کہ دوسری پر کام کا بوجھ بڑھا دیتی ہیں تو آپ کے نزدیک تو شاید یہ اسمارٹننس ہو مگر تقویٰ کی راہ میں یہ رویہ رکاوٹ پیدا کرتا ہے۔

اگر آپ غیبت، جھوٹ، جھگڑے سے بحالت روزہ باز رہتی ہیں اور تکلیف دہ اور ضرررساں رویوں، اعمال سے دوسروں کے لیے پریشانی کا باعث نہیں بنتیں تو امید ہے کہ آپ روزے کے مقصد کو پا گئی ہیں۔ اللہ ہم سب کو اپنے روزوں کی حفاظت کرنے اور اسے آلودہ ہونے سے بچانے کی شعوری کوشش کرنے کی توفیق دے اور ہمارے روزوں کو قبول فرمائے۔آمین۔