مہنگائی کے جن کا حملہ غربت کے ماروں پر

ہمارے ملک پاکستان میں ہر چیز اتنی مہنگی ہوگئی ہے کہ غریب شخص کا جینا دو بھر ہوگیا ہے۔ حکمران تو بھول ہی گئے ہیں کہ جیسے وہ مہنگائی کر کے ایک غریب شخص کو نہ صرف ڈپریشن میں ڈال رہے ہیں بلکہ ان کو خود کشی جیسے گناہ پر مجبور کر رہے ہیں۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ جو رات کے اندھیرے میں لوگوں کے حالات کے بارے میں جاننے کے لیے گشت پر جاتے تھے اور ایک آج کے حکمران ہیں جن کو صرف ٹیکس چاہیے اور اس ٹیکس کا پوچھ لے عوام تو قرضے کی بات آجاتی ہے کہ دوسرے ممالک کا قرضہ دے رہے ہیں۔ ان سیاست دانوں کی لڑائی میں غریب عوام کا برا حال ہوگیا ہے غریب انسان نہ جینے کا رہا ہے نہ مرنے کا۔ اب کل کی ہی بات ہےمیں بازار جارہی تھی۔ 80 سالہ خاتون نے روتے ہوئے میرے سامنے دس روپے کے لیے ہاتھ جوڑ دیے کہ وہ بھوکی ہے اس کا کوئی نہیں اس کے بچوں نے غربت کی وجہ سے اس بوڑھی عورت کو گھر سے نکال دیا ہے کہ ہم اس بڑھیا کو پالیں یا اس کا علاج کرائیں؟ یا اپنے بیوی بچوں کو؟ یااللہ غربت نے ایک انسان کو انسان سے حیوان بنا دیا۔

اس مہنگائی کی وجہ سے جرائم اتنا بڑھ گیا ہے کہ ایک موبائل کی خاطر لوگ انسانوں کو مار دیتے ہیں۔ ایف اے، بی اے کر کے لڑکیاں گھر بیٹھیں ہیں۔ مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے اخراجات نہیں۔ ماں باپ بچیوں کو چھوڑ کر پھر سے بچوں کو پڑھا رہے ہیں۔ یہ سوچ کر کہ لڑکے تو کما کر کھلائیں گئے اور وہی غریب کا بچہ پڑھ لکھ جائے تو جو بچہ ڈاکٹر بننا چاہتا تھا یا کوئی وکیل یا استاد تو رشوت کے بغیر نوکری نہیں ملتی اور یہ پڑھے لکھے لوگ کب اور کیسے مہنگائی سے تنگ آ کر چور ڈاکو بن گئے کچھ پتہ نہیں چلتا۔ پاکستان کا اب اللہ ہی مالک ہے کیا بنے گا؟ لوگ مر رہے اور حکمران مہنگائی کر رہے ہیں۔

مہنگائی غریب کے لیے ایسا ایک جن بن گیا ہے جو ہر نئے دن کے ساتھ غریبوں کی خواہشات ان کے خواب ان کی خوبصورت زندگی کے لمحات ان کی خوشیاں ان کا کھانا ان کی ہنسی ان کا سکون چھین لینے کے ساتھ  زندگیاں بھی نگلتا ہے، غربت کے مارے اپنے گردے بیچ رہے ہیں اور کچھ لوگ تو مہنگائی سے تنگ آکر اپنے بچے تک بیچ رہے ہیں۔ کچھ والدین مہنگائی سے تنگ آکر اپنے بچوں کے گلے پر چھریاں چلا رہے۔ کچھ نہروں اور دریاؤں میں پھینک رہے۔ کچھ اپنے بچوں اور گھر والوں کو کھانے میں زہر ملا کر دے رہیں اور اسی مہنگائی سے تنگ آکر لوگوں نے دوسرے گھروں کی عزتوں (لڑکیوں) کو اغوا کر کے بیچنے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ اور کچھ نے بچے اغوا کر کے ان کو قتل کر کے ان کے دل گردے بیچنے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔

مہنگائی کی اس خوفناک صورتحال کو دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آئندہ سالوں میں پاکستان کا کیا حال ہونے والا ہے۔ پاکستان میں اصل مہنگائی کی وجہ تیل کی بڑھتی ہوئی قیمت ہی نہیں بلکہ کھانے پینے اور پہننے اور اوڑھنے کی چیزوں کی قیمت بھی ہے۔ 2019 میں مہنگائی کی مجموعی شرح 8فیصد تھی۔ جب غذائی اشیاء کی قیمت 8.1 فیصد تھی۔ اس سے اگلے سال 2020مہنگائی کی مجموعی شرح 8.6 فیصد تھی اور غذائی اشیاء کی قیمت 14.6 تھی۔ اور 2021 میں مہنگائی کی مجموعی شرح 9.7 تھی۔ اور غذائی اشیاء کی 10.5 تھی اور اسی طرح ہر سال بڑھتی اس مہنگائی کی شرح نے غریب بندے کو مار دیا ہے۔ اس طرح گزشتہ سالوں میں بڑھتی قیمتوں میں تیل اور کھانے پینے کی اشیاء میں حد سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ پیاز کی قیمت گزشتہ دنوں تین سو کلو تھی ۔ مرغی کے گوشت کی قیمت سات سو روپے کلو ہے۔ گھی کی قیمت چھ سو روپے کلو اور آئل کی قیمت ساڑھے آٹھ سو روپے کلو ہے۔ ایک روٹی کی قیمت پندرہ سے بیس روپے ہے۔ چاول کی قیمت 400 روپے کلو، اور آٹا کا تو پاکستان میں قال پڑ گیا ہے۔ لوگ آٹا لینے کے لیے مر اور لڑ رہے ہیں۔ آٹے کی وجہ سے غریب شخص ذلیل وخوار ہوچکا ہے۔ حکومت جو مرضی کرتی پر اسے آٹا مہنگا نہیں کرنا چاہیے تھا۔ غریب کے پاس ایک روٹی ہی تھی اور حکمرانوں نے وہ بھی چھین لی۔ اب غریب مر رہیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ اللہ دیکھ رہا ہے سب کو اور اللہ بہتر انصاف کرنے والا ہے۔ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ یہ الفاظ ہی ایک غریب کا اب حوصلہ ہیں۔ اللہ پاک رحم فرمائے۔آمین۔