دھند میں مقید آزادی

جاتی سردیاں بھی خوب ہوتی ہیں اور وہ بھی خصوصاً کراچی والوں کے لئے دن بھر پنکھوں کی ٹھنڈک سے مستفید ہو کر نیم شبی کی مست خنکی کو محسوس کرتے ہوئے سپیدہ سحر کے آثار دیکھ کر اٹھتے ہیں تو آنے والی سحر دھندلائی ہوئی نظر آتی ہے اس کی دھندلاہٹ کو کمزور بصارت والے اپنے چشمے کی کارستانی سمجھ کر جو چشمہ صاف کر کے دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اصل میں یہ کو بہ کو پھیلی ہوئی دھند ہے جو کراچی والوں سے شناسائی نہیں رکھتی کبھی بھولے بھٹکے سے آ بھی جائے تو خوشبو کی طرح اسے پذیرائی بھی نہیں ملتی کیونکہ یہ دھند سارے مناظر دھندلا دیتی ہے اور کراچی والوں کو اس کی عادت بھی نہیں وہ سارے حساب “صاف” رکھتے ہیں کے الیکٹرک مافیا کے خلاف دھرنا ہو یا الیکشن کے نامکمل عمل کا درست کرنا ہو اہل کراچی صاف صاف کہہ دینا پسند کرتے ہیں مگر یہ دھند میں چھپے موسم اور روئیے کراچی والوں کی سمجھ سے بالاتر ہیں کہ آخر اس سست رفتاری سے جاتی ہوئی سردی اور برق رفتاری سے آتی ہوئی گرمی کے بیچ میں ایسا کیا ہے کہ جو بلدیاتی انتخابات کے بعد کے عمل کو نامکمل پاکر بھی طوالت کا شکار کرتا چلا جا رہا ہے ۔

دھند رشتوں کے مابین ہو یا اداروں اور رویوں کے درمیان ہر دوسری جگہ شفافیت کے عمل کو مشکوک بنا دیتی ہے کہ کہنا پڑتا ہے کہ اب ایسی بھی کیا پردہ داری صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں کہ مصداق پلوں کے نیچے سے پانی نہیں دریا بھی نہیں بلکہ سمندر بہا دئیے جاتے ہیں اور اہل کراچی دم بخود حیران و پریشاں بیٹھے رہ جاتے ہیں کہ

بقول غالب

حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں

مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں

یہ غالب میاں نوحہ گر کی بھی خوب کہہ گئے پہلے زمانے میں تو پڑوس میں میت ہو تو آپوں آپ رونا آ جاتا تھا اب تو گھر کے اندر میت ہو جائے تو کوئی بریانی کھائے بغیر آنسو ہی نہیں بہاتا کہتے بڑی بھوک لگی ہے بریانی آئی ہے ؟ پیٹ بھرے تو جاکر کچھ رو رو کر جانے والے کی بتیاں سنائیں گے ۔

بڑے بوڑھے جو پہلے زمانے کی باقیات کے تھے وہ تو چلے گئے یا خاموش ہو کر رہ گئے اب ہم جیسے جو نہ اگلی نسل کے ہیں اور نہ پچھلی نسل کے بس شکر ہے کہ اچھی نسل کے ہیں بس اسی پر اکتفاء کئے بیٹھے ہیں کہ نسل اچھی ہے کس کی ؟ حکمرانوں کی؟ ارے نہیں بھئی آپ غلط سمجھ رہے ہیں ان کی نسل کا پتہ لگوانے کے لئے بچوں کو جدید ٹیکنالوجی کے تحت علم حاصل کرنے جامعہ کراچی میں داخلہ دلوارکھا ہے ہم تو عوام کی بات کر رہے ہیں کہ الحمدللہ رب العالمین پاکستان کی ساری عوام بہترین نسل سے ہے ناک ،کان،آنکھیں حواس خمسہ بہترین کام کرتے ہیں بس ان کا استعمال ذرا دھیرج سے کیا جاتا ہے کہ مہنگائی کا زمانہ ہے کسی چیز کو زیادہ استعمال کرنے سے اس کے کم ہونے کا احتمال ہو جاتا ہے اسی لئے ہماری عوام عقل ہو کہ فہم و فراست کم کم استعمال کرتی ہے انہیں معلوم ہے کہ حزبِ اختلاف والے ہوں یا حزب اقتدار والے یہ “اشیاء” دونوں میں متروک ہو چکی ہے اب عوام نے بھی ان کا زیادہ استعمال کیا تو قحط الرجال کا خطرہ بڑھ جائے گا اس لیے گیس مہنگی ہو جائے یا بجلی آٹا ،پیاز ٹماٹر بھلے سے نہ ملے اشرافیہ کے واٹس ایپ اور فیس بک اسٹیٹس پر پیزا ہٹ ،میکڈونلڈ اور کے ایف سی کے تمام ذائقے تصاویر کی صورت موجود ہیں ناں وہاں سے اسکرین شاٹ لے کر عوام اپنے اسٹیٹس پر ڈاؤن لوڈ کر لیں گے اور دال کھا کر بھی بلکہ کچھ نہ کھا کر بھی” بہت کچھ ” پیٹ بھر کر کھانے کے اسٹیٹس لگا کر ملک سے محبت کا اظہار کیا کرتے ہیں کیونکہ یہ اشرافیہ کی کرپشن کے دھندلکے میں بھی شفاف احساسات رکھتے ہیں انہی کی شفافیت سے پاکستان قائم ہے پاکستان زندہ باد پاکستانی عوام پائندہ باد۔