ایک نئے ”سبز دور” کی شروعات

چین میں اس وقت بجلی کی پیداوار کے لئے کوئلے پر انحصار کم سے کم ہوتا جا رہا ہے اور قابل تجدید توانائی میں بڑی پیش رفت کو یقینی بنایا گیا ہے، جو ملک کے ”دوہرے کاربن” اہداف کے حصول اور عالمی موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لئے ایک نمایاں کاوش ہے۔یہ امر باعث حیرت ہے کہ چین میں قابل تجدید توانائی کی پیداوار 2022 میں 2.7 ٹریلین کلو واٹ تک پہنچ چکی ہے، جو ملک کی بجلی کی مجموعی کھپت کا 31.6 فیصد ہے،جبکہ اس میں 2021 کے مقابلے میں 1.7 فیصد پوائنٹس کا اضافہ ہے۔یوں،قابل تجدید توانائی ملک میں توانائی کی فراہمی کو یقینی بنانے میں تیزی سے نمایاں کردار ادا کر رہی ہے۔

اس بات کا تذکرہ بھی لازم ہے کہ ملک میں قابل تجدید توانائی کی مستحکم ترقی، بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں میں تیز رفتار سرمایہ کاری کی بدولت ممکن ہوئی ہے اور چین نے 2022 میں قابل تجدید توانائی کی اپنی نئی نصب شدہ صلاحیت کو 152 ملین کلو واٹ تک پہنچایا ہے۔اس دوران متعدد تاریخی منصوبے مکمل کیے گئے ہیں، جن میں ملک کے دوسرے سب سے بڑے بائی حے تھان ہائیڈرو پاور اسٹیشن کا مکمل آپریشن بھی شامل ہے۔ انہی حاصل شدہ کامیابیوں کی بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ آج چین کے قابل تجدید توانائی کے وسائل دنیا کی قیادت کر رہے ہیں، اور نئی توانائی کے حوالے سے فعال عالمی صنعت کی توجہ چین کی جانب مبذول ہو رہی ہے۔یہ پہلو بھی قابل تحسین ہے کہ چین کے تیار کردہ فوٹو وولٹک ماڈیولز، ونڈ ٹربائنز، گیئر باکسز اور دیگر اہم عناصر کا گزشتہ سال ”عالمی مارکیٹ شیئر ” 70 فیصد تھا۔یوں،چین کی ری نیو ایبل انرجی انڈسٹری کی تیز رفتار ترقی 2030 تک کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں کمی کو عروج پر پہنچانے اور 2060 تک کاربن نیوٹرل حاصل کرنے کی ملکی کوششوں میں ایک ٹھوس قدم

ہے۔ان کوششوں کے ثمرات یوں بھی سامنے آئے ہیں کہ 2022 میں چین کی قابل تجدید توانائی کی پیداوار ملکی سطح پر کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں 2.26 بلین ٹن کمی کے مساوی رہی ہے۔اسی طرح چین کی جانب سے دیگر ممالک کو برآمد کردہ ہوا سے بجلی پیدا کرنے والے آلات اور فوٹو وولٹک مصنوعات نے اُن ممالک کو تقریباً 573 ملین ٹن کاربن اخراج کو کم کرنے میں مدد کی ہے۔ ان دونوں اعداد و شمار کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ چین مجموعی طور پر 2.83 بلین ٹن کاربن اخراج میں کمی کا موجب رہا ہے، جو قابل تجدید توانائی کی وجہ سے کاربن اخراج میں کمی کا تقریباً 41 فیصد ہے۔یوں،چین موسمیاتی تبدیلی کے خلاف عالمی جنگ میں ایک فعال ترین اور اہم شراکت دار بن چکا ہے۔

چین کی جانب سے نئی توانائی کی ترقی کے حوالے سے یہ اعداد و شمار ایک ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب بین الاقوامی توانائی تنظیم (آئی ای اے) کی ایک نئی رپورٹ کے مطابق، قابل تجدید توانائی کا اگلے تین سالوں میں عالمی سطح پر بجلی کی فراہمی میں شیئر نمایاں حد تک بڑھ جائے گا۔دنیا کو اس حقیقت کا بخوبی ادراک ہو رہا ہے کہ پائیدار ترقی کے لیے ماحول دوست رویے لازم ہیں جس میں بجلی کے شعبے میں ”تخفیف کاربن اخراج” ایک اہم ترین نقطہ ہے، یہی وجہ ہے کہ دنیا میں قابل تجدید اور جوہری توانائی کی طلب، بجلی کی بڑھتی ہوئی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے کافی تیزی سے بڑھ رہی ہے.دوسری جانب یہ توقع بھی ظاہر کی گئی ہے کہ 2023سے2025 کے دوران قابل تجدید توانائی کے اضافے میں چین کا شیئر 45 فیصد سے زیادہ ہو جائیگا، اس کے بعد یورپی یونین 15 فیصد کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے۔اس تناظر میں،چین کے 14 ویں پانچ سالہ منصوبے میں قابل تجدید توانائی کی صنعت کے لئے ترقیاتی اہداف سے بھی عالمی تنظیم کی پیش گوئی کی توثیق ہوتی ہے۔جون 2022 میں جاری کردہ اس منصوبے میں کہا گیا ہے کہ 2021 سے 2025 تک بنیادی توانائی کی کھپت میں 50 فیصد سے زیادہ اضافہ قابل تجدید توانائی سے ہوگا۔2025 تک قابل تجدید توانائی کی کھپت ایک ارب ٹن معیاری کوئلے

کی بچت کے برابر ہوگی۔یہ تمام اقدامات ظاہر کرتے ہیں کہ چین میں ایک نئے سبز دور کی شروعات ہو چکی ہیں، اور سبز ترقی جدت کاری کے چینی راستے کی عکاسی کرتی ہے۔