الیکشن کمیشن پر سوالیہ نشان

اللہ اللہ کرکے بلآخر بلدیاتی الیکشن ہو ہی گئے۔ تاریخ پر تاریخ ملنے کے بعد جہاں امیدوار دیوالیہ ہونے لگے تھے وہیں عوام بھی ان امیدواروں کا اچھا خاصہ مذاق بنارہی تھی، جہاں کوئی امیدوار ملتا وہیں ٹرولنگ شروع ہوجاتی۔ کبھی چیئرمین کہہ کر پکارنے کی صدا بلند ہوتی تو کہیں کونسلر صاحب کہتے لوگ مذاق اڑاتے نظرآتے۔ اس مایوسی کے عالم میں 15جنوری کو ملنے والی تاریخ بھی ڈاماڈول تھی۔ کسی کو یقین تک نہیں تھا کہ الیکشن ہوں گے۔ جمعہ کو شرجیل میمن کے بیان نے امیدواروں کو جہاں مکمل مایوس کیا وہیں الیکشن کمپیئن بھی بری طرح متاثر ہوئی۔ ہفتے کی رات تک لوگوں کو یقین نہیں تھا کہ صبح الیکشن ہوں گے بھی یا نہیں، مگر شکر ہے کہ کفر ٹوٹا خدا خداکرکے۔

الیکشن بخریت گزر گئے۔ اب مسئلہ وہی ستر سال پرانا آڑے آگیا ہے جو ہر الیکشن کے بعد شروع ہوتا ہے اور یہ مسئلہ اگلے الیکشن تک چلتا رہتا ہے۔ دیگر مسائل کی طرح یہ مسئلہ بھی ستر سالوں میں آج تک حل نہیں ہوسکا اور نا اب عوام کو اس مسئلے کے حل کی کوئی امید نظرآتی ہے۔ ہمارا مینڈیٹ چرایاگیا ہے، ووٹنگ کا عمل دوبارہ ہوگا، رات کو ہم جیت رہے تھے، صبح کیسے ہار گئے، فلاں پارٹی نے دھاندلی کی، فلاں پارٹی کے ورکروں نے ٹھپے لگائے۔ پہلے یہ مسائل سمجھے جاتے تھے مگر اب یہ الیکشن کمیشن اور جمہوریت کے ماتھے کاجھومر بن گئے ہیں۔ الیکشن کے بعد اگر یہ صدائیں بلند نہ ہوتو عوام کو شک ہوجائے گا کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے۔ کہیں پارٹیوں نے آپس میں ہی تو گٹھ جوڑ نہیں کرلیا؟ اور اس طرح پورا الیکشن سلیکشن بن جاتا۔ مگر شکرہے کہ کراچی کے بلدیاتی الیکشن کے بعد بھی الیکشن چوری کی صدائیں بلند ہوئیں جس سے عوام نے سکھ کا سانس لیا۔

دنیا چاند پر پہنچ چکی ہے اور ہم آج بھی چھوٹے چھوٹے مسائل میں الجھے ہوئے ہیں، یا الجھایا گیا ہے۔ الیکشن کمیشن کا کام آئین کے مطابق انتخابات کرانا ہے، مگر ہرمرتبہ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ الیکشن کمیشن انتخابات تو کرادیتا ہے مگر وہ ہمیشہ بدنظمی کا ہی شکار رہتے ہیں۔ کبھی کسی پارٹی نے یہ نہیں کہا کہ شفاف الیکشن ہوئے ہیں اور ہم اس الیکشن کو نا صرف دل سے تسلیم کرتے ہیں بلکہ الیکشن کمیشن کو بھی مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ یہاں تو جب بھی الیکشن ہوتے ہیں بدلے میں الیکشن کمیشن کو لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں کی مد میں لوگ گالیاں ہی دیتے نظرآتے ہیں۔ دوسرے نمبر پر اس جماعت کو گالیاں پڑتی ہیں جو حکومت میں ہوتی ہے۔ ان پر ہمیشہ یہ الزام لگتا ہے کہ سرکاری مشینری کا بھرپوراستعمال کرکے اپنی جماعت کو کامیاب کرایاگیا۔

حالیہ بلدیاتی الیکشن میں بھی ایسا ہی کچھ دیکھنے میں آیا۔ جہاں سرکاری مشینری نے اپنے امیدواروں کی کامیابی میں بھرپور کردار ادا کیا۔ اس میں کوتاہی الیکشن کمیشن کی بھی تھی جس نے ایسے عملے کو پریذائیڈنگ آفیسر بنایا جنہوں نے کبھی اس شعبے میں کام ہی نہیں کیا۔ کہیں ڈاکٹر نظر آئے تو کہیں پولیو اسٹاف، کہیں مڈوائف تو کہیں چپڑاسی پریذائیڈنگ آفیسر بنا بیٹھا تھا۔ اگر انہیں اتنی حساس پوسٹ دینی ہی تھی تو کم از کم ان کے لیے بھرپور ٹریننگ پروگرام رکھا جاتا۔ ٹیسٹ رکھے جاتے جو پاس ہوتے انہیں اس سیٹ پر بٹھایاجاتا تاکہ الیکشن کمیشن کے کردار پر کوئی داغ نہ لگتا۔ مگر بلدیاتی الیکشن میں ایسا محسوس ہوا جیسے الیکشن کمیشن نے بلدیاتی انتخابات کروا کر جان چھڑائی ہے۔

الیکشن کمیشن نے کراچی کو محض ایک چھوٹا ایڈونچر سمجھا تھا جوان کے بقول باآسانی سر کرلیاجائے گا، مگر یہ ایڈونچر الیکشن کمیشن پر مزید ایک کالادھبا چھوڑ گیا۔ جن پولنگ اسٹیشنزکا میں نے وزٹ کیا وہاں ایسے معاملات ضرور دیکھے۔ پریذائیڈنگ آفیسر کو معلوم ہی نہیں کہ روم کیسے سیٹ کرنے ہیں، نا ہی اس بارے میں کوئی معلومات دی گئی کہ فارم 11اورفارم 12کیسے فل کیے جاتے ہیں۔ کئی پولنگ اسٹیشن پر پولنگ کا عمل پانچ بجے ختم ہونے کے بعد کاؤنٹنگ شرو ع ہوئی مگر رزلٹ کیسے بنانا ہے یہ عملے کو معلوم ہی نہیں تھا۔ بعض جگہوں پر پولنگ ایجنٹس ہی پریذائیڈنگ آفیسر کی ڈیوٹی نبھاتے نظرآئے۔

رات گزر گئی مگر دن ڈھلے بھی جب رزلٹ نہ ملے تو اس میں سیدھا سیدھا شک جاتا ہے کہ دھاندلی ہوئی ہے۔ اور یہ ہمیشہ ہی ہوتا رہا ہے کہ کئی پولنگ اسٹیشن کے رزلٹ روک دیے جاتے ہیں اورٹی آراوز ایک مخصوص جگہ پر بیٹھ کر رزلٹ کے ساتھ گیم کھیلتے رہتے ہیں۔ اس بات میں سچائی نہ بھی ہو مگر عوام کے دلوں میں الیکشن کمیشن محض ایک دھاندلی زدہ ادارہ بن چکا ہے ۔ رزلٹ موقع پر ہی ملنا ہی تمام خدشات کو دور کرتا ہے مگر جہاں رزلٹ روک دیے جائیں وہاں سے دھاندلی کی پرانی کہانی شروع ہوجاتی ہے۔ امیدوار رزلٹ کے انتظار میں ادھر ادھر بھاگتے نظرآتے ہیں۔ اور جب ان میں سے کوئی جیت جاتا ہے تو دوسرا اسے کبھی ماننے کو تیار نہیں ہوتا۔ اس کی وجہ الیکشن کمیشن کا دقیانوسی نظام ہے جو شفاف الیکشن کی طرف جانا ہی نہیں چاہتا۔

شفاف انتخابات جہاں الیکشن کمیشن کی ذمے داری ہے وہیں پارلیمنٹ پر بھی بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ جدید طرز عمل کو اختیار کرتے ہوئے انتخابات میں ٹیکنالوجیز کے استعمال کے سلسلے میں قانون سازی کرے۔ مگر یہاں ایسا اس لیے بھی ممکن نہیں کہ اگر ایسا ہوگیاتو لوگ اب پرانے چہروں اور نظام سے تھک چکے ہیں، اس لیے انہیں اس بات کا ڈر ہے کہ اگر ٹیکنالوجیز کا استعمال کیاگیا تو پھر ان کا کیا بنے گا۔ لازمی ہے کہ یہ مسترد لوگ ہیں ، عوام انہیں اب دیکھنا نہیں چاہتی اور یہ ہی مجبوری ہے کہ ہم ٹیکنالوجیز کی طرف نہیں جاتے۔

یورپ اور امریکا کے دورے ہمارے سیاستدان بڑے شوق سے کرتے نظرآتے ہیں ، مگر وہاں سے کچھ سیکھنے اور کچھ ٹیکنالوجیز لانے کیلیے ان کی ہمت نہیں ہوتی۔ عوام کو بے وقوف بنائے رکھنے کا یہ گیم آخر کب ختم ہوگا؟۔ دنیاچاند سے آگے جاچکی ہے، ٹیکنالوجیز نے اتنی ترقی کرلی ہے کہ باس کسی دوسرے ملک سے اپنے کارخانے اور فیکٹریاں چلا رہے ہیں، گلوبل ولیج سمٹ کر انگلیوں تک محدود ہوچکا ہے، مگر ہم آج بھی پرانے نظام پر چل رہے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ یہ سال ترقی کا ہے۔ دراصل ہم ترقی نہیں تنزلی کاشکار ہیں۔ ہر سال ہماری تنزلی ہوتی ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ترقی ہے۔

ہمارے پڑوسی ممالک بھارت اوربنگلادیش آج ہم سے کئی گنا آگے جاچکے ہیں، ایکسپورٹ میں بھی یہ لوگ دنیا کے ساتھ قدم ملا کر چل رہے ہیں۔ ٹیکنالوجیز نے ان ممالک کو آج ترقی کی شاہراہ پر لاکھڑا کیا ہے اور یہ وہاں دوڑ رہے ہیں، ہمارے پاس سب کچھ ہونے کے باوجود ہم اس پر کام نہیں کرتے، ہم اپنی ایکسپورٹ کو بہتر نہیں بناتے، ہم نظام میں تبدیلی نہیں لاتے، ہم سیاحت پر توجہ نہیں دیتے جس سے آج دنیا سرمایہ اکھٹا کررہی ہے ہم سیاحت کو بے کار سمجھ کر اسے پیچھے دھکیل چکے ہیں۔ امریکا، یورپ اور چین میں لوگ جدید ٹیکنالوجیز والے فون لینے کے لیے لائنیں لگاتے ہیں، اور ہم آٹا، پیٹرول، چینی کے لیے لائیں لگارہے ہیں۔ یہ ہماری تنزلی کی اعلیٰ مثالیں ہیں جس پر کل تک دنیامسکرا رہی تھی، آج قہقے لگا رہی ہے، اور ہم بھی ان کے ساتھ ساتھ بے شرموں کی طرح ہنس رہے ہیں جیسے یہ ہمیں کوئی جوک سنا رہے ہوں ۔

کراچی پاکستان کا آج بھی معاشی ہب ہے، مگر جس بے دردی سے ہم اس کو تباہ کرنے پر تلے ہیں وہ وقت دور نہیں جب سوڈان اورافریقا میں بھی پاکستان کی مثال ایک بھکاری ملک کی دی جانے لگے گی۔ کراچی کو پیروں پر کھڑاکرنے کے لیے ضروری ہے کہ اس پر توجہ دی جائے، اس کے مسائل حل کیے جائیں، کراچی کو اس کا جائز حق دیاجائے۔ تاکہ یہ کراچی پاکستان کو دنیا میں ایک بہترین مثال بننے میں مددگار بن سکے۔ اور پاکستان کا نام روشن کرسکے۔ اگر آج بھی اس کے ساتھ الیکشن کے نام پر سلیکشن والی کہانیاں دھرائیں گئیں تو بہت جلد کراچی تباہ ہوجائے گاجس کا نقصان پورے ملک کو اٹھاناپڑے گا۔

حصہ
mm
روزنامہ جسارت سے وابستہ ہونے کے ساتھ ساتھ مختلف بلاگز ویب سائٹس پر بلاگ ‘فیچرز اور تاریخی کہانیاں لکھتے ہیں۔ روزنامہ جسارت کے سنڈے میگزین میں بھی لکھ رہے ہیں۔ روزنامہ جناح کراچی میں بطور سندھ رنگ میگزین کے انچارج کے طورپر اپنی خدمات بھی انجام دے چکے ہیں۔ زیادہ تر معاشرتی مسائل پر لکھنے کا شوق ہے۔ اس کے علاوہ کراچی پریس کلب کے ممبر اورپاکستان فیڈرل کونسل آف کالمسٹ کے بھی ممبرہیں۔