بحیثیت قلمکار میرا مقصد زندگی‎‎

میری زندگی کا مقصد تیرے دین کی سر فرازی

میں اسی لئے مسلماں میں اسی لئے نمازی

شاعر نے خوب کہا کہ نماز پڑھنے اور مسلمان ہونے کی چنداں کوئی اہمیت نہیں اگر دین کی سر فرازی کے لئے جہد مسلسل میں حصہ نہ لیا جائے۔

ہر انسان کسی نہ کسی مقصد کے لئے جیتا ہے قطع نظر اس بات کے کہ وہ مقصد کتنا بلند ہے۔ نہ جانے انسان کا معیار اتنا گھٹ کیوں گیا ہے کہ وہ معیار زندگی کو بلند سے بلند کرنے کو مقصد بنا لیتا ہے۔ حالانکہ اللہ کے جتنے احسانات ہیں انسان پر ان میں سے ایک احسان پر ہی انسان غور کر لے تو اس کی نماز، اٹھنا، بیٹھنا، کھانا، پینا، قربانی، اموال سب اللہ کے لئے ہو جائے۔

ہر سچے اور با شعور مسلمان کی طرح بحثیت ‘قلمکار’ میرا مقصد بھی اعلائے کلمتہ اللہ ہے، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضے کی ادائیگی میں حصہ ڈالنے کی کوشش ہے، شہادت حق دینا مقصود ہے قلم سے نکلے الفاظ کے ذریعے۔ حق بات بے لاگ کہنا اور غلط بات، رویے، طرز زندگی پر دو ٹوک مؤقف رکھنا مجھے پسند ہے۔ میں سمجھتی ہوں اور دین کے شعور سے بہرہ ور ہونے کی وجہ سے سمجھتی ہوں کہ آپ کی زندگی میں جو بھی مشکلات ہوں، مصائب ہوں، غلط رویوں کا سامنا ہو، ان سے نکلنے کی راہ آپ نہ پا رہے ہوں تو بھی اس غلط طرز عمل، رویوں پر قلم ضرور اٹھائیں، یہ شعور بیدار ضرور کریں کہ غلط پر کثرت سے عمل غلط کو صحیح نہیں بناتا، حق پرستوں کو اس لئے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کہ وہ حق پر ہونے کے باوجود کمزور سمجھ کر دبا لئے جاتے ہیں۔ حق کبھی جھکتا نہیں، ہاں باطل اور غلط کی کثرت جھاگ بن کر اپنا آپ نمایاں ضرور کرتی ہے مگر یہ جھاگ بیٹھ ہی جاتی ہے خواہ باطل کی کتنی ہی کثرت ہو۔

بحثیت قلمکار میں رضائے الٰہی کے حصول کے لئے کوشاں ہوں اور اللہ کی عطاء کردہ قلمی صلاحیت کو اپنی شخصیت کی ان تمام کمزوریوں کا نعم البدل سمجھتی ہوں جو مجھے جاہلانہ رویوں اور لہجوں پر بولنے نہیں دیتیں، جو اپنی حق تلفی پر مروت، لحاظ، طبعی شرافت کی بناء پر جواب دینے سے روکتی ہیں۔

میرا لکھنے کا مقصد یہ بھی ہے کہ اسلام کے خلاف اور مسلمانوں کے خلاف ہونے والی ہر سازش کو بے نقاب کیا جائے۔غط کو غلط اور صحیح کو صحیح کہا جائے۔ اللہ کے دین اسلام کی غالب حیثیت ثابت کی جائے۔ یہ شعور بیدار کیا جائے کہ اہل ایمان کی قلت باطل کی جیت کی علامت نہیں،باطل کے ایوانوں تک یہ بات پہنچا دینا میرا مقصد ہے کہ اسلام کے نوجوانوں کو غلط پٹری پر تو چڑھایا جا سکتا ہے، ان کی آنکھوں میں دھول تو جھانکی جا سکتی ہے مگر قلمکاروں کے قلموں کی روشنائی کوئی نہیں چھین سکتا کیونکہ وہ خون سے داستانیں رقم کرنے، تاریخ بنانے اور باطل کی سازشوں کو طشت ازبام کرنے سے گیدڑ بھبھکیوں سے نہیں ڈرتے، انہیں اپنی عظیم تر ذمہ داریوں کا احساس ہے، انہوں نے اپنے اسلاف احمد بن حنبل، ابن قیم، ابن تیمیہ، سید مودودی غرض سبھی کی استقامت، باطل کے آگے چٹان بن جانے مگر اپنے مؤقف سے نہ ہٹنے سے یہی سبق لیا ہے کہ تہذیب حاضر کی چمک جب بھی نظروں کو خیرہ کرے تو چمک کی تہہ تک ضرور پہنچا جائے تا کہ اس اندھی تہذیب کے چہرے سے ملمع اتارا جائے۔ بلاشبہ یہ اسلام کے قلمکاروں کا فرض ہے۔ اللہ تمام قلمکاروں کو حکمت سے نوازے اور صالحین سے ملائے۔آمین