ویل کم جماعت اسلامی

لمحوں نے خطا کی تھی، صدیوں نے سزا پائی۔ 1987 اور 2023 کے درمیان بہت سے دریا اور پہاڑ اور خون کی ندیاں ہیں، جن کو عبور کر کے آج جماعت اسلامی کراچی میں پھر سے سرخ رو ہوئی ہے۔ جماعت اسلامی نے اس شہر کو لاالہ کے نور سےجگمگانے کی کوشش کی تھی۔ لیکن کچھ قوتیں ایسی تھیں، جو جماعت اسلامی کو اس شہر سے نکالنا چاہتی تھی، لیکن جماعت اسلامی اس شہر سے نہیں نکل سکی۔ اس نے اپنے کارکنوں کے لہو کی قربانی دی، لاشیں اٹھائیں اور اپنے موقف پر ڈٹ کر کھڑی رہی، اس عرصے میں درمیان میں اسے جب بھی کام کرنے کا موقع ملا، اس نے اپنا فرض ادا کیا، نعمت اللہ خان کی سٹی گورنمنٹ نے اس شہر میں وہ انمٹ نقوش قائم کیے کہ کوئی بھی انھیں نہ بھول سکا۔ میئر عبدالستار افغانی کے ترقیاتی کام آج بھی اس شہر کے لوگوں کو یاد ہیں۔ کراچی شہر حریت ہے، اپنا فیصلہ خود کرتا ہے، اس کے نفع نقصان کو بھی برداشت کرتا ہے، لیکن یہ شہر جن کو ووٹوں سے منتخب کرتا ہے، انھیں ووٹوں ہی سے شکست بھی دیتا ہے۔ حافظ نعیم الرحمن کی صورت میں جماعت اسلامی کو ایسی بے باک اور ویژن رکھنے والی قیادت ملی، جس نے اس شہر کی تعمیر نو کا ایک خواب دیکھا، اس کے نوجوانوں کو پان گٹکا، منشیات، لوٹ مار، بھتہ خوری سے نکال کر باعزت شہری بنانے کا عز م کیا اور پھر اس کام میں جت گیا، سردی گرمی، بارش، طوفان، رات دن، اندھیرا اجالا، اس نے کچھ نہ دیکھا اور لوگوں کی مدد سے حالات کو بدلنے محکموں کو لگام ڈالنے، بھتہ خوری کو روکنے، کے الیکٹرک کی چیرہ دستیوں، اور سوئی گیس کی لوٹ مار، کرونا کی مصیبت، سیلاب کی تباہ کاریوں، بارش کی تباہی، سب میں اپنا کردار اد کیا۔

آج کراچی میں جماعت اسلامی ووٹوں کی طاقت سے ایک بار پھر قومی دھارے کی سیاست میں داخل ہوئی ہے، حافظ نعیم نے مسلسل محنت اور یکسوئی سے اس شہر کی تعمیر و ترقی کے لیے بساط بھر کوشش کی۔ لیکن ان کا ویژن ہے کہ یہ کام حکومتی وسائل سے زیادہ بہتر طور پر ہوگا اور اسی لیے انھوں نے کراچی کی مئیر شپ کے حصول کو سامنے رکھ کر ایک ایسی جدوجہد کا آغاز کیا، جو ہمیشہ یاد رکھی جائے گی، جماعت اسلامی کی کامیابی کر چرانے کی بہت کوشش کی گئی لیکن یہ سب کرنے والوں کے منہ پر کالک ہی ملی گئی۔ جماعت اسلامی کو کراچی کے بلدیاتی انتخاب میں 94 نششتوں پر کامیابی ہوئی ہے، لیکن اس کی نشستوں کو مختلف ہتھکنڈوں سے کم کیا گیا، لوٹی ہوئی ان سیٹوں پر دو دن تک پیپلز پارٹی نمبر ون پارٹی ہونے کا جشن بھی مناتی رہی۔ لیکن حافظ نعیم الرحمان اور ان کے کارکنوں نے جن کے پاس مصدقہ دستخط والے فارم11 تھے، پیپلز پارٹی کے حلق سے یہ سیٹیں نکلوالی ہیں اور کچھ پر ابھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ ابھی دوسرا مرحلہ تقریبا آٹھ سیٹوں کا باقی ہے، جہاں دوبارہ گنتی ہونی ہے، یوں جماعت اسلامی کے پاس سو سے زائد نشستیں ہوں گی۔

کراچی کی میئر شپ کے لیے لوگوں نے حافظ نعیم الرحمان کا انتخاب کیا ہے، اور کراچی میں لوگوں نے ان ہی کی قیادت کو چنا ہے، اگر حکومت کو کراچی کی حیثیت کو بحال کرنا ہے، اس شہر کی تعمیر نو کرنا ہے، ملک اور قوم کے وقار میں اضافہ کرنا ہے تو انھیں جماعت اسلامی کی قیادت کو یہ موقع ضرور دینا چاہیئے، جماعت اسلامی کو احتجاجی سیاست سے نکل کر اب کام پر توجہ کرنا ہوگی۔ عوام نے ووٹ دیا ہے وہ جانتے ہیں کون منتخب ہے اور کوئی دھاندلی سے آنا چاہتا ہے۔ پیپلز پارٹی کو بھی اب کراچی دشمنی کا رویہ ترک کرنا چاہیئے۔ یہ شہر سب کا ہے، یہاں سندھی، مہاجر پٹھان، پنجابی، سرائیکی، بلوچ اور دیگر قومیں آباد ہیں، اس کی تعمیر و ترقی میں سب کو شامل ہونا چاہیئے، سندھ کے شہری علاقوں میں تین نسلیں پیپلز پارٹی دشمنی میں جوان ہوئی ہیں۔ اب موقع ہے کہ یہ دشمنی دوستی اور بھائی چارے میں تبدیل ہو۔ عام آدمی سندھی باشندوں سے محبت رکھتا ہے۔ اس محبت کو فروغ دینا چاہیئے، تاکہ صوبہ ترقی کرے۔ کوئی بھی بلدیاتی باڈی سندھ حکومت کے بغیر نہیں چل سکتی۔ اس لیے سندھیوں سے محبت بھائی چارے اور حکومت سے ورکنگ ریلیشن قائم ہونی چاہیئے۔ جماعت اسلامی کی میئر شپ میں اگر کراچی میں تعمیر و ترقی ہوئی تو پیپلز پارٹی کو بھی ہمیشہ یاد رکھا جائے گا اور شہر اور صوبے میں ترقی کی نئی راہیں کھلیں گی۔ میڈیا نے جماعت اسلامی کو ہمیشہ نظر انداز کیا ہے، اسے بھی اپنا رویہ ترک کرنا ہوگا۔ کل طلعت حسین نے ایک ٹی وی شو میں حافظ نعیم الرحمن سے کہا کہ” حافظ صاحب اب آپ کو تو شکایت نہ ہوگی کہ میڈیا آپ کو ٹائم نہیں دیتا ہےحافظ نعیم نےاس بات کے جواب میں کہا کہ “

اس کے لئے ہمیں پہلے نمبر ون کی جماعت بننا پڑا ہے۔ دنیا آپ کو اس وقت مقام دیتی ہے۔ جب آپ ان کی صفوں میں گھس کر اپنے لئے جگہ بناتےہیں۔ جماعت اسلامی کو سندھ میں کام کرنےکے لیے نئی حکمت عملی بنانی پڑے گی۔ سندھ میں اگر کام کرنا ہے تو جماعت اسلامی کو پیپلز پارٹی سے اپنے تعلقات پر نظر ثانی کرنی ہوگی۔ بھٹو دشمنی کی تین دہائی نے سندھ میں بسنے والوں کو بہت پیچھے دھکیل دیا ہے۔ سندھی آبادی نےکراچی کے گوٹھوں نے جماعت اسلامی پر جس اعتماد کا اظہار کیا ہے وہ لائق تحسین ہے۔ حافظ نعیم الرحمن نے سندھی مہاجر پنجابی پٹھان بلوچ سرائیکی سمیت ساری قومیتوں کو یک جان کردیا۔ کراچی سب کا ہے۔ الحمد للہ یوم تشکر کراچی کے عوام نے فیصلہ دے دیا۔ جماعت اسلامی ایک بار پھر قومی سیاست میں اپنا کردار ادا کرے گی۔ بلدیاتی انتخابات میں کامیابی سے ایک نیا آغاز ہوگا۔

جو لوگ الیکشن میں بائیکاٹ کرتے ہیں وہ ہارے ہوئے جواری ہوتے ہیں۔ جن کی سیاست کے باب میں کوئی قدر قیمت نہیں ہوتی۔ جماعت اسلامی نے بھی یہ ہزیمت اٹھائی ہے۔ اس کی بڑی قیمت چکانی پڑتی ہے۔ ایم کیو ایم نے بائیکاٹ کرکے میدان پیپلز پارٹی کے ہاتھوں میں دے دیا۔ کراچی حیدرآباد اور دیگر مقامات پر مہاجر ووٹ کو جس بزدلی کا سامنا اس فیصلے سے ہوا ہے۔ اس کے اثرات اگلے چار برس میں پتہ چلیں گے۔ الیکشن صرف کراچی میں نہیں دیگر جگہوں پر بھی تھا۔ صرف کراچی میں جماعت اسلامی متحرک اور مقابلہ پر تھی۔ باقی جگہ پیپلز پارٹی کا مقابلہ ایم کیو ایم کرسکتی تھی۔ لیکن ایم کیو ایم نے مہاجر عوام سے غداری کی اور بلدیات پلیٹ میں رکھ کر پیپلز پارٹی کو دے دی۔ وہ حکومت کے کاسہ لیس بن کر رہ گئے ہیں۔ اب وا ویلا کرنے سے کچھ نہیں ہوگا۔ ڈیفنس میں رہنے والے ارب پتی مڈل کلاس قیادت کس منہ سے غریب مہاجروں کی نمائندگی کا دعویٰ کرتی ہے۔ جس نے مہاجروں کی تین نسلوں کو پان گٹکا ہیروئن لوٹ مار پر لگا دیا اور ان سے ان کا وقار تعلیم اخلاق تہذیب بھی چھین لی۔ اب انھیں اگلے الیکشن تک انتظار کرنا ہوگا۔

حصہ
mm
عطا محمد تبسم سینئر صحافی، کالم نگار ہیں،وہ خرم بدر کے قلمی نام سے بھی معروف ہیں اور ان کئی کتابیں، قاضی حسین احمد انقلابی قیادت، محبتوں کا سفر رپوژ تاژ کاروان دعوت و محبت،سید مودودی کی سیاسی زندگی، پروفیسر غفور احمد،محبتوں کا سفیر سراج الحق عوام میں پذیرائی حاصل کرچکی ہیں، مارکیٹنگ کے موضوع پر ان کی تین کتابیں فروخت کا فن، مارکیٹنگ کے گر، اور مارکیٹنگ کے 60 نکات اور 60 منٹ ان کے ان کے اصل نام سے شائع ہوچکی ہیں۔وہ ایک ٹی وی چینل کی ادارت کی ٹیم کا حصہ ہیں۔جنگ، جسارت، نوائے وقت ایکسپریس، جہاں پاکستان میں ان کے کالم اور مضامین شائع ہوتے ہیں۔ وہ ایک اچھے بلاگر کے طور پر بھی جانے جاتے ہیں۔ بیمہ کار میگزین اور بیمہ کار ڈاٹ کام کے ایڈیٹر ہیں۔