گا ،گے اور گی، کا کھیل

ابھی گزشتہ دنوں قومی سلامتی کمیٹی (این ایس سی) نے پاکستان میں دہشت گردی کے لئے ’زیروٹالرنس‘ کے عزم کا اعادہ کرتے ہر قسم کی دہشت گردی جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا عہد دہرایا ہے۔ کمیٹی نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ دہشت گردی سے پوری ریاستی قوت سے نمٹا جائے گا۔ صوبائی ایپکس کمیٹیز بحال کی جارہی ہیں اور انسداد دہشت گردی محکموں کی صلاحیتوں اور استعداد کار کو مطلوبہ معیار پر لایا جائے گا۔ پاکستان کی سلامتی پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوسکتا اور پاکستان کی سرزمین کے ایک ایک انچ پر ریاستی عمل داری کو یقینی بنایا جائے گا۔ قومی سلامتی کمیٹی میں کہا گیا کہ مضبوط معیشت کیلئے ٹھوس اقدامات کئے جائیں گے۔ درآمدات میں توازن، کرنسی کی بیرون ملک غیر قانونی منتقلی روکی جائے گی۔ کسی ملک کو اپنی سرزمین دہشت گردوں کی پناہ گاہ کے طور پر استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

ہم جب اسکول پڑھا کرتے تھے تو انگریزی کے استاد ہمیں انگریزی کے جملوں کو پہچاننے کا طریقہ سمجھاتے تھے کہ جملوں کے آخر میں اگر تاہے ، تی ہے ، اور تے ہیں کے الفاظ آجائیں تو وہ زمانہ موجودہ کا جملہ ہوگا اور اسی طرح اگر تھا ،تھی ،تھے کے الفاظ آجائیں تو یہ ماضی کا جملہ ہوگا اور اگر گا ،گی ، گے ہوں تو وہ زمانہ مستقبل کا جملہ ہوگا۔اگر آپ غور کریں تو اجلاس میں جن باتوں کا اعادہ اور عزم کیا گیا ہے وہ سب مستقبل سے متعلق ہیں ۔

قومی سلامتی کمیٹی کی 2014 میں اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کے زمانے میں بنائی گئی تھی اور نام سے ہی سمجھاجاسکتا ہے کہ اس کے قیام کا مقصد کتنا اعلیٰ ہے ۔ اب آتے ہیں قومی سلامتی کمیٹی کی طرف جس کے چالیسویں اجلاس کا عزم و ارادہ اوپر درج ہے ۔ اپنے قیام سے اب تک قومی سلامتی کمیٹی کا یہ چالیسواں اجلاس تھا اب تک کے ان اجلاسوں میں جن باتوں اور نیک تمنّاؤ ں کا اظہار اعلامیوں کی صورت میں کیا گیا ان کو عملی جامہ پہنایا گیا ان تمام اعلامیوں کا تعلق جملوں کی جس اقسام سے ہے اس کے بھی آخر میں الفاظ گا ،گے اور گی کے آرہے ہیں اس سے پتا چلتاہے کہ ان تمام اقدامات کا تعلق مستقبل سے ہے ۔

ان اجلاسوں میں وہ لوگ شریک ہوئے جو کہ اپنے ہنر میں طاق ہیں مثال کے طور پر وزیر خزانہ اسحاق ڈار صاحب  ان کے پاس کئی بار وزارت خزانہ کا قلمدان رہ چکا ہے اب پھر ان کو دوبارہ خزانے کا وزیر بنا دیا گیا ہے۔ پہلے بھی ہندسوں کے گورکھ دھندے سے قوم کو سبز باغ دکھائے تھے اور پھر ملک دیوالیہ نہیں ہوگا، ملک دیوالیہ نہیں ہوگا کا ورد زبان پر اب پھرجاری ہے ۔ نواز شریف صاحب جو کہ بانی ہیں ان اجلاسوں کےکئی وزاتوں میں پہلے بھی فائز رہے اور وزارت عظمٰی کے مزے تو کئی بار لوٹ کر لندن سے پاکستان کی حکومت چلارہے ہیں ۔اس اجلاس کی صدارت کپتان صاحب بھی کرچکے ہیں ان کے لیے وزارت عظمٰی کا تجربہ پہلی بار تھا اب تک ان اجلاسوں سے کچھ حاصل وصول نہیں ہوا۔ ان بیشمار اجلاسوں کے اخراجات اٹھا اٹھا کر قوم کی کمر دوہری نہیں بلکہ تہری ہوئی جارہی ہے۔

کیا شرکاء قوم و ملک کی محبت میں اپنے خرچے پر ان اجلاسوں میں شرکت کرنے آتے ہیں۔اتنے پیشہ ورانہ صلاحیتیوں کے حامل یہ افراد یہ سادہ سی بات نہیں سمجھتے کہ کسان بھی اپنے کھیت کے چاروں اطراف باڑھ لگاتاہے باہر سےکھیت میں آنے والے جانوروں سے بھی اپنے کھیت کی حفاظت کرتاہے اور کھیت کے اندر بھی فصل کو نقصان پہنچانے والے کیڑے مکوڑوں سے حفاظت کے لیے وقفے وقفے سے اسپرے کیا کرتاہے کیا یہ بات کہ کسان کیو ں اتنی محنت فصلوں کی حفاظت کے لیے کرتاہے یہ معلوم کرنےکے لیے اسے کسی دانشور کے پاس جانا پڑے گا یا کسان اپنے فصل کی حفاظت یا اس کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے کمیٹی قائم کرتاہےاور پھر اسی طرح گا ،گے ،گی والے عزم اور ارادہ کرتا رہتاہے ۔ نہیں بلکہ اس کو اس بات کا کامل یقین ہوتاہے کہ اگر یہ اقداما ت میں نہیں کئے تو میں فصل کی آمدنی سے محروم ہوجاؤں گا اور پھر سارا سال خود کیا کھاؤں گا اور بچّوں کی کفالت کیسے کروں گا۔

نواز شریف صاحب بھی اجلاسوں میں شریک ہوئے۔ انہوں نے اپنے دور اقتدار میں قومی سلامتی لیے کیا اقدامات کئے۔ کیا ملک کی سرحدیں محفوظ ہوگئیں کیا، معیشت مستحکم ہوگئی۔ ملک کی سرحدیں ماضی سےزیادہ آج غیر محفوظ ہیں۔ اس کی وجہ کچھ اور نہیں کہ ہم سنجیدہ نہیں ہیں۔اس وقت ریاست کے جتنے بھی شعبہ جات ہیں وہ پرانے گلے سڑے بلکہ زیادہ بہتر ہوگا کہ اس کو بانچھ نظام کہاجائے انہی کے زریعےریاست کے کام چلائے جارہے ہیں یہ بات تو نوشتہ دیوار ہےکہ قوم کو اس نظام سے کچھ نہیں ملے گا اس سے کسی قسم کی بہتری کی امید رکھنا خام خیالی ہے جو لوگ اس نظام سے بہتری کی امید دلارہے ہیں ان کے اس بانجھ نظام سے بھی مفادات وابسطہ ہیں قوم نظام کو تبدیل کرنے کی فکر کرے ورنہ ہر آنے والا دن اپنے ساتھ نئی ہلاکت خیزی لائے گا۔ چہروں کی تبدیلی نظام کی تدیلی کا نام نہیں نظام کی تبدیلی ہی سب سے بہترین کا م ہے جوکہ ہمارے اپنے لیے بھی ازحد ضروری ہے اور آنے والی نسلوں کے لیے ضروری ہے۔