سونے کی چڑیا کون ہاتھ سے جانے دے

اتوار کی صبح سویرےبازار جانا ہوا تو سبزیوں اور پھلوں کی افراط نظر آئی، تازہ تازہ سبزیاں ڈھیر کی شکل پر ٹھیلوں اور سڑک کنارے فروخت کرنے والے لیے بیٹھے تھے۔ ٹماٹر آج سو روپے کے ڈھائی کلو تھے،لیکن خوش رنگ ٹماٹروں کو کوئی نہیں پوچھ رہا تھا، مٹر آلو، پالک ، بند گوبھی، شلجم سب کچھ نارمل ریٹ پر تھا،چند ہفتوں پہلے سبزی کے ریٹ آسمان پر تھے، ٹماٹر تین سو روپے کلو تھے اور لوگوں خرید رہے تھے، شکوہ بھی تھا کہ سبزیوں کے بھاؤ بہت بڑھ گئے۔ لیکن اب جب سبزی بازار اور مارکیٹ میں سستی ہے تو ہم مرغی کی قیمت کا رونا لے کر بیٹھے ہوئے ہیں.

کراچی میں مرغی کا گوشت 5 سو اسی روپے کلو ہے۔ مرغی کی قیمت بڑھتے دیکھ کر گائے کا گوسٹ ہڈی والا خاموشی سے 800 روپے کلو کردیا گیا ہے، دودھ کی قیمت پر یوں بھی کوئی کنٹرول نہیں 190 روپے لیٹر فروخت کیا جارہا ہے۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے یہاں قیمتوں کے اتار چڑھاؤ پر کوئی کنٹرول نہیں، مارکیٹ ریٹ کنٹرول کرنے والے تمام محکمے اور ان کے اہل کار رشوت بٹورنے کا کام کرتے ہیں، سندھ میں رشوت اس قدر دیدہ دلیری سے پہلے کبھی نہیں لی جاتی تھی، کل ایک دودھ والے کے پاس کھڑا تھا، ایک موبائل آکر رکی، پولیس والے نے دودھ، دہی، انڈے لے کر اس نے سو دوسو روپے ہی دیئے ہوں گے، اگلے مرحلے پر اس نے آس پاس کھڑے پھل والوں کے ٹھیلے سے بھی کچھ پھل اٹھا کر اپنے شاپر میں ڈال لیے، اوپر والے اس سے زیادہ رشوت لیتے ہوں گے، سندھ حکومت کا آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔

حکومت کی جاری کردہ پرائس لسٹ نہ کوئی دیکھتا ہے ، اور نہ اس پر کوئی عمل ہوتا ہے، اشیاء خورد و نوش کی مختلف دکانوں پر مختلف قیمتیں ہیں۔ یہاں پر یہ مرغی تقریباً 700 روپے فی کلو مل رہی ہے۔ حکومت کی طرف سے جاری کردہ پرائس لسٹ یہاں پر موجود نہیں ہے سوال یہ ہے کہ ان قیمتوں کی نگرانی کون کر رہا ہے؟ ان محکموں اور ان کے اہلکاروں کا جواز کیا ہے۔ جب زیادہ شور مچتا ہے تو کمشنر کی جانب سے ایک اعلامیہ جاری کردیا جاتا ہے کہ ان دکانداروں پر جرمانہ عائد کیا جائے گا جو سرکاری پرائس لسٹ آویزاں نہیں کریں گے۔ آٹے کی قیمتوں پر مجھے بے حد تشویش ہے، آٹے کا دس کلو کا تھیلہ اس وقت مارکیٹ میں سولہ سو روپے تک پہنچ گیا ہے، آٹا ملیں کیا کر رہی ہیں، ان کی قیمتوں پر کنٹرول کرنے والا کون ہے اور کیا وہ سو رہے ہیں، انہیں نظر نہیں آرہا کہ کیا ہورہا ہے، یوٹیلیٹی اسٹورز پر آنے والا آٹا لوگوں کو نہیں مل رہا، لائین لگی رہتی ہے اور آٹا ختم ہوجاتا ہے، سستے آٹے کے نمائشی ٹرک اب غائب ہوچکے ہیں۔ لوگ پریشان حال ہیں۔

کراچی میں ہرطرف مٹی اور کچرے کے ڈھیر ہیں، مین ہول، نالے کھلے پڑے ہیں، ترقیاتی کام کے نام پر درختوں کو کاٹا جارہا ہے، ہر طرف مافیاز کا راج ہے، پانی سردی میں بھی لائینوں میں دستیاب نہیں مگر ٹینکر سے ضرور دستیاب ہے، رقم خرچ کریں اور پانی منگوالیں۔ اس صورت حال میں حکمران ٹولہ بھی اپنی رنگ رلیوں اور لوٹ کھسوٹ میں مصروف ہے۔ اس وجہ سے پاکستان کبھی ترقی نہیں کر سکے گا کیوں کہ ’ایک طرف بدعنوان نظام ہے اور دوسری جانب نام نہاد قوم ہے، جو اب تک نہ کوئی لائحہ عمل رکھتی ہے اور نہ اس میں کوئی جذبہ اور تحریک ہے، ایک ہجوم ہے، جو سمت کا تعین کیے بغیر دوڑے جا رہا ہے۔ گزرا سال 2022 مہنگائی کے حوالے سے پاکستان کے عوام پر کافی بھاری رہا ہے۔ مالی سال 2021-2022 تک مہنگائی کی شرح 12 فیصد سے 13 فیصد تک رہی تاہم نئی حکومت کے آنے کے بعد جون میں نئے مالی سال 2023-2022 کا بجٹ آنے کے باعث ملک میں مہنگائی کا ایک نیا طوفان سامنے آیا جس کی باعث مہنگائی گزشتہ سات ماہ سے 20 فیصد سے اوپر رہی۔ خطے کی مناسبت سے مہنگائی کی شرح کا موازنہ کیا جائے تو سال 2022 میں مہنگائی کی اوسط شرح بھارت میں تقریباً 7 فیصد، چین میں تقریباً 2 فیصد جبکہ بنگلا دیش میں 7.4 فیصد رہی۔ اس کے برعکس پاکستان میں مہنگائی کی اوسط شرح تقریباً 20فیصد رہی، یوں مہنگائی میں اضافے کے اعتبار سے پاکستان چین، بھارت اور بنگلا دیش سے اوپر ہے۔

سود اللہ اور اس کے رسولﷺ سے جنگ ہے۔ اور ہم یہ جنگ مسلسل کیے جارہے ہیں، دل میں ہڈ حرامی ہو تو، پھر کوئی کام نہیں ہوسکتا، سو بہانے اور مسائل اور مشکلات کا رونا روتے رہیں گے، اس شرح سود میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے، جس سے مہنگائی میں بھی دن بدن اضافہ ہورہا ہے۔

کسی بھی ملک کی معاشی صورتحال اور افراطِ زر کا اندازہ اس ملک میں حکومت کی جانب سے متعارف کرائی گئی شرح سود سے لگایا جا سکتا ہے۔ معاشی ماہرین کے مطابق شرح سود میں عموماً اس وقت اضافہ کیا جاتا ہے جب ملک میں جاری مہنگائی پر قابو پانے میں حکومت کو مشکل پیش آ رہی ہو، جبکہ شرح سود میں اس وقت کمی کی جاتی ہے جب ملک میں معاشیات کا پہیہ سست روی سے چل رہا ہو۔ ماضی میں بھی کورونا لاک ڈاؤن کے باعث ملکی معیشت کو سست روی کا سامنا کرنا پڑا جس کے نتیجے میں اسٹیٹ بینک کی جانب سے شرح سود میں ریکارڈ کمی کرتے ہوئے ریکارڈ 5.75 فیصد تک لے جایا گیا۔ سال 2022 میں ملکی معیشت میں استحکام لانے اور مہنگائی کی شرح کو کم کرنے کیلئے شرح سود میں گزشتہ ایک سال کے دوران 625 بنیادی پوائنٹس کا اضافہ کیا گیا تھا۔ 15 دسمبر 2021 میں شرح سود 9.75 فیصد تھی، جسے سابق حکومت کے اقتدار سے جانے سے دو دن قبل 250 بیس پوائنٹس بڑھا کر 12.25 فیصد کر دیا گیا۔ 24 مئی 2022 میں مرکزی بینک کی جانب سے شرح سود میں ایک بار پھر 150 پوائنٹس کا اضافہ کرتے ہوئے اسے 13.75 فیصد کر دیا گیا، 13 جولائی 2022 کو شرح سود 125 بیس پوائنٹس اضافے کے ساتھ 15 فیصد تک جا پہنچی، جبکہ سال 2022 میں 28 نومبر 2022 کو شرح سود میں آخری بار 100 بیس پوائنٹس کا اضافہ کرتے ہوئے اسے ریکارڈ 16 فیصد کر دیا گیا۔ یوں پاکستان کی شرح سود کی موجودہ شرح گزشتہ 24 سالوں کی بلند ترین شرح ہے۔ اور منگائی کا جن قابو سے باہر ہے۔

کراچی اور حیدرآباد میں بلدیاتی انتخابات کو ایک مذاق بنا دیا گیا ہے، حکومت انتخابات کرانے میں ہرگز سنجیدہ نہیں ہے، مجھے تو 15 جنوری کو بھی کراچی میں بلدیاتی انتخابات ہوتے نظر نہیں آرہے، حافظ نعیم الرحمان نے ایک بار پھر جلسہ جلوس ریلی نکال کر الیکشن کرانے کی مہم شروع کی ہے، لیکن قرائن بتا رہے ہیں کہ یہ بیل منڈھے نہیں چڑھے گی، کراچی پر اسٹیبلشمنٹ کی رال ٹپکتی ہے، وہ حکومت سندھ، اور اپنے حلیفوں کے ذریعے 30 سال سے اس شہر کے وسائل کو چاٹ رہی ہے، وہ اب بھی اس سونے کی چڑیا کو ہاتھ سے جانے نہیں دیں گے۔

حصہ
mm
عطا محمد تبسم سینئر صحافی، کالم نگار ہیں،وہ خرم بدر کے قلمی نام سے بھی معروف ہیں اور ان کئی کتابیں، قاضی حسین احمد انقلابی قیادت، محبتوں کا سفر رپوژ تاژ کاروان دعوت و محبت،سید مودودی کی سیاسی زندگی، پروفیسر غفور احمد،محبتوں کا سفیر سراج الحق عوام میں پذیرائی حاصل کرچکی ہیں، مارکیٹنگ کے موضوع پر ان کی تین کتابیں فروخت کا فن، مارکیٹنگ کے گر، اور مارکیٹنگ کے 60 نکات اور 60 منٹ ان کے ان کے اصل نام سے شائع ہوچکی ہیں۔وہ ایک ٹی وی چینل کی ادارت کی ٹیم کا حصہ ہیں۔جنگ، جسارت، نوائے وقت ایکسپریس، جہاں پاکستان میں ان کے کالم اور مضامین شائع ہوتے ہیں۔ وہ ایک اچھے بلاگر کے طور پر بھی جانے جاتے ہیں۔ بیمہ کار میگزین اور بیمہ کار ڈاٹ کام کے ایڈیٹر ہیں۔