دہشت گردی کے دوبارہ ابھرنے کا خدشہ

دہشت گردی ایک عالم گیر مسئلہ جس نے دنیا کے امن کو تہہ و بالا کر کے رکھا ہو اہے ۔ امریکہ نے نائن الیون کے بعد نام نہاد دہشت گردی کی جنگ کا آغاز کیا جس کے تحت شروع کی گئی ’’ وار آن ٹیرر‘‘ کا اصل ٹارگٹ افغانستان ہی تھا۔امریکہ نے اپنے48حواری ملکوں کی مدد سے افغان سرزمین پر جارحیت کا ارتکاب کرتے ہوئے یہاں اپنی فوجیں اتاریں اور اسے بمباری کا نشانہ بناتے ہوئے تورا بورا بنا دیا۔ واشنگٹن اور اس کے اتحادیوں نے من پسند کٹھ پتلی حکومت قائم کی جو زیادہ دیر تک اپنا تسلسل برقرار نہ رکھ سکی اور دوسری جانب طالبان کی مزاحمت سے افغانستان خانہ جنگی کا شکار ہو گیا۔ بہر حال اپنی عزت بچانے اور بحفاظت واپسی کے راستے کیلئے بالآخر نام نہاد عالمی سپر پاور کو طالبان کے آگے گھٹنے ٹیکنے پڑے اور قطر میں کئے گئے مذاکرات میں بھی پاکستان نے کلیدی کردار ادا کیا۔

امریکہ نے افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ شروع کرکے20 برس کے دوران کھربوں ڈالرز جھونک دئیے گئے لیکن واشنگٹن 3 لاکھ سے زائد افغانیوں کو بھی جنگی تربیت دے کر اور انہیں مسلح کرنے کے باوجود اپنے مذموم عزائم حاصل نہ کر سکا۔امریکہ کی یہ خواہش تھی کہ بھارت کو استعمال کرکے جنوبی ایشیاء میں اپنی اجارہ داری قائم کی جائے تاکہ چین کی عالمی افق پر بڑھتی ہوئی مقبولیت کے آگے ایک مضبوط دیوار کھڑی کی جا سکے۔ ’’ون بیلٹ ون روڈ‘‘ منصوبے کو ثبوتاژ کرنے کیلئے ایڑھی چوٹی کا زور بھی لگا یاگیایہی وجہ ہے کہ پاکستان کیلئے ایٹمی پروگرام کی طرح سی پیک منصوبہ بھی زندگی اور موت کا سوال بن چکا ہے۔ اس میں کوئی دور ائے نہیں کہ بھارت شروع سے ہی پاکستان میں ریاستی دہشت گردی کر رہا ہے۔ لیکن عالمی برادری نے کبھی بھی بھارتی اشتعال انگیزیوں کا نوٹس نہیں لیا، محض اظہار مذمت پر ہی اکتفا کیا جا تا ہے ۔خطے میں ہونے والی دہشت گردانہ کارروائیوں میںافغان ایجنسی ’این ڈی ایس‘ کو انڈین انٹیلی جنس ایجنسی ’ را ‘ کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے۔

اگرچہ پاکستان کی مسلح عسکری و سول قیادت نے دہشت گردی کی کمر توڑنے کیلئے ’ضرب عضب‘، ’ آپریشن ردالفساد ‘ کئے تاہم اس جنگ میں پاکستان کو اربوں ڈالرز سمیت 80ہزار سول و فوجی قربان کرنے پڑیں۔جبکہ امریکی خارجہ کی ترجمان نیڈ پرائس کا یہ بیان کہ دہشت گرد پاکستان پر حملے کیلئے افغان سر زمین استعمال کر سکتے ہیں۔ لمحہ فکریہ سے کم نہیں ہے ۔کالعدم ٹی ٹی پی جس طرح دوبارہ سر اٹھا رہی ہے خدشہ ہے کہ افغانستان پھر عالمی دہشت گردوں کی پناہ گاہ نہ بن جائے۔ پاکستان نے امریکہ کو افغانستان سے نکلنے کیلئے بھر پور لاجسٹک سپورٹ فراہم کی بدلے میں پاکستان کو کیا ملا الٹا امریکی ڈومور کے تقاضوں میں اضافہ ہو گیا۔ حالانکہ ان خدمات کے عوض دفاعی امداد کے ساتھ ساتھ کولیشن سپورٹ فنڈکے تحت 6 ارب ڈالر دینے کا وعدہ کیا تھا جو آج بھی کیری لوگر بل کی شکل میں امریکی دفتر خارجہ کی فائلوں میں موجود ہے۔

بھارت نے گزشتہ دو دہائیوں میں افغانستان میں اپنا اثرو روخ ہی نہیں بڑھایا بلکہ امریکی آشیر باد پر خطے میں تخریب کاری کو پروان چڑھایا اور اس کے ساتھ ساتھ طالبان اور افغان فورسز کے درمیان ڈبل گیم کھیلی۔نریندر مودی کو علاقے کی سلامتی و امن ایک آنکھ نہیں بھاتا اس لئے وہ تباہی پھیلانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ افغانستان میں امریکی انخلاء اور طالبان کی اقتدار سے واپسی سے اس کے مذموم عزائم ناکام ہوتا دیکھ کر اضطراب میں مبتلا ہے اس لئے اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آیا ہے اور سرحد پر فائرنگ کرکے طالبان اور پاکستان کے مابین دوریاں پیدا کرنے کی سازشوں کا آغاز کر دیا ہے، حالیہ چمن سانحہ بھی اسی مذموم سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ افغان سکیورٹی فورسز کی جانب سے بلوچستان کے شہر چمن کی شہری آبادی پر توپ خانے اور دوسرے بھاری ہتھیاروں سے بلا اشتعال اندھا دھند فائرنگ کے نتیجے میں سات پاکستانی سویلین شہید اور17زخمی ہو گئے۔ پاکستانی حکام نے کابل میں افغان حکومت سے رابطہ کیا مگر اس وقت تک دو درجن پاکستانیوں کا خون بہہ چکا تھا۔ اس سانحے کے نتیجے میں پاک افغان سرحد پر باب دوستی کے راستے ہر قسم کی آمدورفت بند اور دو طرفہ تجارت معطل کر دی گئی تھی۔ جسے مذاکرات کے بعد کھول دیا گیا۔ پاکستانی فورسز نے افغان جارحیت کا موثر انداز میں بھرپور جواب دیا تاہم افغان علاقے میں بے گناہ شہریوں کو نشانہ بنانے سے گریز کیا۔ پاکستان نے افغان فورسز کی جانب سے اس بلا اشتعال کارروائی پر شدید احتجاج کیا اور کابل حکومت سے اس طرح کے واقعات روکنے کیلئے سخت ترین کارروائی کا مطالبہ کیا۔

اگر دیکھا جائے توپاکستان نے نامساعد حالات میں بھی 35لاکھ سے زائد افغانیوں کو اپنے ملک میں پناہ دے رکھی ہے اور انہیں ہر طرح کی سہولتیں فراہم کر رہا ہے۔ طالبان حکومت کو دنیا کے کسی بھی ملک نے اب تک تسلیم نہیں کیاجبکہ پاکستان تسلیم کئے بغیر ہی اس کے ساتھ تجارت سمیت ہر قسم کے تعلقات قائم رکھے ہوئے ہے اور قوموں کی برادری میں افغانستان کے حقوق کی وکالت بھی کر رہا ہے۔ پاکستان کے دفتر خارجہ نے درست کہا کہ اس طرح کے واقعات بھائی چارے کے اصولوں سے مطابقت نہیں رکھتے۔ لہٰذا افغانستان اور پاکستان کے درمیان 2611 کلو میٹر طویل سرحد پرمزید بدامنی کی صورت میں خطرناک نتائج برآمد ہو سکتے ہیں ۔پاکستان اور چین کو مشترکہ اقتصادی راہداری کے منصوبے ’سی پیک‘ کو آپریشنل کرنے کیلئے علاقائی امن کی زیادہ ضرورت ہے تاکہ عالمی منڈیوں تک رسائی آسان ہو سکے لہٰذا افغانستان کی خراب ہوتی صورتحال پر دونوں ممالک کا فکرمند ہونا ایک فطری امر ہے۔ اقتصاری راہداری منصوبہ وفاق اور صوبوں کے درمیان تعلق مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کررہا ہے اس عظیم منصوبے کی تکمیل سے پسماندہ علاقے ترقی یافتہ علاقوں سے منسلک ہورہے ہیں جس سے صنعتی پارک اور آئل پائپ لائنز کے قیام سے ملک بھر میں ملازمت کے مواقع پیدا ہوں گے۔

چینی کمپنیوں کی مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری سے جدیدٹیکنالوجی بھی پاکستان میں منتقل ہورہی ہے جس سے پاکستان کوخطے میں مزیدمستحکم ہونے کے مواقع میسر آ رہے ہیں افغانستان اور خطے کے دیگر ممالک میں بیک وقت ہونے والی دہشت گردانہ کارروائیوں کی کڑیاں پاکستان کی سلامتی کے درپے بھارت کی جاری سازشوں کے ساتھ ملتی نظر آتی ہیں جسے اب خطے میں امن کی بحالی ہضم نہیں ہو رہی یہی وجہ ہے کہ مودی حکومت عالمی دہشت گرد تنظیم ’داعش ‘ کی بھی اسی مقصد کے تحت سرپرستی کررہی ہے ایسے میں عالمی برادری کو محض بیانات پر ہی اکتفا نہ کرکرتے ہوئے انسانی بحران سے نمٹنے کیلئے بھرپور مدد کرنا ہو گی کیونکہ اگر بروقت اقدامات نہ اٹھائے گئے تو افغانستان کا عدم استحکام صرف پاکستان کے لئے ہی مسائل کا باعث نہیں بنے گا بلکہ اس سے خطے کے تمام ممالک متاثر ہوں گے۔ افغانستان میں بھارتی فوجی مداخلت کا ثبوت خود بھارتی میڈیا دیتا ہے اور افغانستان میں بھارت کی موجودگی اور اس کی خفیہ ایجنسی  ’را‘  کا مضبوط نیٹ ورک موجود ہے۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ بھارت اپنی دیرینہ خواہش پوری کرنا چاہتا ہے کہ کسی بھی قیمت پر کابل پر اثرنفوذ حاصل کرلے اور دوسری جانب مشرقی سرحدوں کی طرح پاکستانی علاقوں میں گولہ باری اور دراندازی کر کے پاکستان کو مسلسل غیر مستحکم رکھ کر مشرقی اور پھر شمال مغربی سرحدوں پر محدود پیمانے کی جنگ چھیڑدی جائے۔ جس سے سی پیک منصوبہ خطرے میں ڈال کر ناکام کرایا جاسکتا ہے۔ بھارت کی جانب سے اسکی ساز ش کا پردہ فاش ہوچکا ہے کہ اس کو سی پیک پر تحفظات ہیں اور وہ اس منصوبے کو تشویش کی نظر سے دیکھتا ہے۔ قبل ازیں بھارتی وزیراعظم مودی نے ایک تقریب میں اپنے خطاب میں میں پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کا نام لیے بغیر اسے بھارت کی علاقائی خودمختاری کی ’خلاف ورزی‘ قرار دیا تھا کیونکہ بھارت جانتا ہے کہ افغانستان میں امن کا سب سے زیادہ فائدہ پاکستان کو پہنچے گا۔ یہ بھی سچ ہے کہ افغانستان کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کبھی مثالی نہیں رہے، افغانستان کا زیادہ تر جھکاؤ بھارت کی جانب ہی رہا ہے۔