عوامیت پسندی ایک فتنہ

عوامیت پسندی فتنہ اس وقت بنتی ہے جب عوام کے غلط مطالبات کو تسلیم کیا جائے۔ یہاں پر عوامیت پسندی سے مراد عوام کے ایسے گروہ سے لی گئی ہے جن کا مطالبہ آئین پاکستان اور قرآن و سنت کے منافی ہو اور پھر بھی حکومتی سطح پر ان کے مطالبات کی راہیں ہموار کی جائیں۔ عوام کو خوش کرنے کے لیے چاہے ایمان کا سودا کرنا پڑے یا ضمیر بیچنا پڑے، اس سے بھی دریخ نا کیا جائے کیونکہ ہر شخص اقتدار کی بھوک مٹانے کے در پر ہے چاہے ان کی آخرت تباہ ہی کیوں نا ہورہی ہو۔

دور حاضر کی پاپولسٹ جماعت اور پاپولسٹ رہنما اسی بھوک کا شکار ہیں، عوامیت پسندی کے دعویدار رہنما ووٹ کے لالچ میں بصیرت سے محروم ہو چکے ہیں جبکہ عوام لیڈر کی محبت میں شعور سے محروم ہو چکی ہے، یہاں تک کہ پارٹی کا سربراہ اگر غلط راستے پر چلنے اور حق سے بغاوت پر اکسائے تو اس کے ماننے والے اندھی تقلید کر کے بے شعوری اور کم فہمی کا مظاہرہ کرتے نظر آتے ہیں۔

رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: علماء کے چلے جانے کے ساتھ علم بھی چلا جائے گا۔ حتی کہ کوئی عالم باقی نہیں رہے گا اور لوگ جاہلوں کو اپنے رؤساء اور پیشوا بنالیں گے، ان سے مسائل پوچھے جائیں گے اور وہ بغیر علم کے جواب دیں گے، یہ جہلاء خود بھی گمراہ ہونگے اور لوگوں کو بھی گمراہ کردیں گے۔  (صحیح بخاری:100، صحیح مسلم: 2673)

دور حاضر میں وطن عزیز میں علماء سے زیادہ جہلا نظر آتے ہیں، عوام کا بڑا طبقہ حقیقی وفادار راہنماؤں کی بجائے بے ضمیر راہنماؤں کے پیچھے آنکھیں بند کر کے چل رہا ہے۔ اس میں کچھ شک نہیں وطن عزیز میں عوام کی رائے بہت اہمیت کی حامل ہے لیکن پچھلے کچھ عرصہ سے ملک میں عوامیت پسندی کے ایسے ایسے رجحانات پروان چڑھ رہے ہیں جن کا عقل، شعور سے کوئی تعلق نہیں، بالکل ویسے جسے انسان کو گناہ کی جانب لیجانے والے نفس کا درست راستہ کے انتخاب سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، انسان اپنے نفس کی بھوک مٹانے کے لیے وہ کام بھی کر جاتا ہے جو حقیقت میں گھاٹے کا سودا ہوتا ہے۔ بالکل اسی طرح عوام جمہوریت کا نفس بھی ہے اور ضمیر بھی۔ انسان کا ضمیر بہت کم تعداد میں اسے آواز دیتا ہے جبکہ نفس اسے صبح، شام گناہ کے لیے پکارتا رہتا ہے، اگر ضمیر اور نفس کی ان آوازوں کی ووٹنگ کی جائے تو یقیناً جیت نفس کی آواز کی ہی ہو گی لیکن فہم و شعور رکھنے والے ضمیر کی پکار پہ ہی لبیک کہے گے کیونکہ وہ حقیقت جانتے ہیں۔

عوام کا سمندر جس نے پاک فوج، عدلیہ اور دیگر اداروں کے قواعد و ضوابط کو پس پشت ڈال کر خود پسندی اور لیڈر پرستی میں آگے نکل چکا ہے۔ عوامیت پسندی کے بڑھتے ہوئے اس رجحان کو پاپولسٹ رہنماؤں کی جانب سے بڑھ چڑھ کر سراہا جارہا ہے جو کہ خود اداروں میں اپنا مقام کھو چکے ہیں، یہی نہیں عوامیت پسندی کا یہ فتنہ سیاسی، سماجی میدانوں کے علاوہ دیگر میدانوں میں بھی اپنے قدم جما چکا ہے اور ملک کا کنٹرولر روم بن چکا ہے جس کے اشاروں پر پورا ملک چل رہا ہے۔ گزشتہ دنوں ایک پروگرام میں آڈینس کی جانب سے ایک ڈرامہ کے پروڈیوسر سے سوال کیا گیا ” کیا آپ اس بات متفق ہیں کہ اجکل جتنے بھی ڈراماز ان ائیر ہو رہے ہیں ان میں زیادہ تر مقدس رشتوں کی پامالی اور بے حیائی کے درس کو فروغ دیا جا رہا ہے،  پروڈیوسر کچھ سیکنڈز کے لیے خاموش رہا، اس خاموشی سے سوال کا جواب تو مل چکا تھا مگر پھر اس نے خاموشی توڑتے ہوئے سوال کا جواب دینے کی بجائے عرض یہ کیا، اصل میں ہم عوام کو وہ مٹیریل پرووائیڈ کرتے ہیں جو عوام ہم سے مانگتی ہے۔ یعنی یہ بے حیائی کے ترجمان ڈراماز عوامیت پسندی کا ایک رجحان ہے۔ عوام حرام مانگے گی تو انہیں حرام مٹیریل پرووائیڈ کیا جائے گا۔

ٹرانس جینڈر ایکٹ بھی عوامیت پسندی کے رجحان کا حصہ ہے، بل منظور ہونے پر عوام کے باقی حصہ پر غم و غصہ کی لہر پائی گئی کیونکہ یہ آئین پاکستان کے منافی اور قرآن و سنت کے متصادم ہے۔ ابھی اس بات کو ہی کوسا جارہا تھا کہ فلم جوائے لینڈ جس کا مرکزی خیال ہی ہم جنس پرستی کا فروغ ہے المیہ بن کر سامنے آگئی، جماعت اسلامی کے رہنما سینیٹر مشتاق احمد خان کی درخواست پر اس پر وقتی طور پر تو پابندی لگا دی گئی مگر جلد ہی دوبارہ اس پر سے پابندی ہٹا دی گئی۔

ملک سیاسی، معاشی عدم استحکام کا شکار ہے، ملکی وحدت پارہ پارہ ہو چکی ہے جس کے پیچھے انہی بے ضمیر عوامیت پسند راہنماؤں اور بصیرت سے محروم عوام کا ہاتھ ہے۔ ملکی باگ ڈور جہلا کے ہاتھ میں بصیرت سے محروم عوام اسی لیے دیا کرتی ہے تاکہ ان کے ناجائز مطالبات پورے ہوتے رہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عوامیت پسندی کے اس فتنے کو کس طرح روکا جائے اور عوام کی آنکھوں سے کم فہمی کی عینک کو کیسے اتارا جائے، اس عینک کو اتارنے کے لیے ضروری ہے کہ عوام میں شعور بیدار کیا جائے جیسے کمزور نظر والے کی آنکھوں سے چشمہ اس وقت خود بخود اتر جاتا ہے جب اس کی بینائی ٹھیک ہو جاتی ہے۔

اس بات کو زیر بحث لانے سے پہلے،”مذہب کا سیاست سے تعلق” پہ بحث ضروری ہے، اکثر لوگوں کا طنزیہ سوال ہوتا ہے: مذہب کا یا مذہبی جماعت کا سیاست سے کیا تعلق ہے؟۔ اس سوال کے جواب کا عوامی بصیرت، عوامی شعور کی بیداری سے گہرا تعلق ہے ۔

علامہ اقبال رحمتہ اللہ فرماتے ہیں:

جلال پادشاہی ہو یا جمہوری تماشہ ہو

جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی

دیندار لوگوں نے خود کو صرف مدرسوں تک محدود کر رکھا ہے۔ وہ اس بات سے بے خبر کہ سیاسی ایوانوں میں کس طرح مل کو دونوں ہاتھوں سے ملک کو لوٹا جارہا ہے یا تو چلّے کاٹنے میں مصروف ہیں اور یا پھر بغیر تحقیق کے کسی مذہبی بات کی بنیاد پر سڑکوں پر آکر توڑ پھوڑ کرنے میں مصروف ہیں اور اگر خود کو دیندار کہنے والے کچھ حکومتی سطح پر موجود ہیں بھی تو وہ بھی اپنے دین کا سودا کیے بیٹھے ہیں اور وہ لوگ جو رب سے ڈرنے والے ہیں، اپنے ملک کو تباہ ہونے سے بچانا چاہتے ہیں انہیں ہمیشہ مداخلت کرنے سے ناصرف روکا جاتا ہے بلکہ خاصی تنقید کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے۔

ٹرانس جینڈر ایکٹ کی منظوری پر سینیٹر مشتاق احمد خان کی جدو جہد قابلِ ستائش ہے، سودی نظام کے خاتمے کے لیے جماعت اسلامی کی کئی سال کی جدو جہد اور مفتی تقی عثمانی کی خدمات قابل دید ہیں۔ دیندار لوگوں کا بہت کم طبقہ جو اس میدان میں موجود ہے، جس دن یہ دیندار لوگ مدرسوں سے نکل کر میدان میں آگئے اس دن عوامیت پسندی کے اس فتنے کا خاتمہ ہو جائے گا۔ ناجائز مطالبات کو مسترد کیا جائے گا۔ مسلمان پر اس کام کی بھی جدوجہد فرض ہے جو کام ناممکن ہو،

مولانا مودودی رحمتہ اللہ فرماتے ہیں: اس انسان کے نماز، روزہ کا کوئی فائدہ نہیں جو نظام کو درست کرنے کے لیے کھڑا نا ہو۔