علامہ اقبال کا خواب

آج سے کئی سال پہلے کی بات ہے براعظم ہند میں مسلمان آزادی کے نام تک سے واقف نہ تھے۔ اسلام کے مطابق زندگی گزارنی ہے نہیں گزارنی ہے سب انگریز سرکار پر منحصر تھا اور مسلمان بس اسی حالت میں زندگی بسر کررہے تھے ایسے میں حکیم الامت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللّٰہ علیہ نے مسلمانوں کے لئے اک علیحدہ وطن کا خواب دیکھا۔ ان کا خواب دیکھنے کا مقصد مسلمانوں کو ایک علیحدہ وطن دلانا تھا ، جس میں وہ آزادی کے ساتھ اسلام کے مطابق زندگی بسر کر سکیں۔ قائد اعظم رحمۃ اللّٰہ علیہ اور دیگر رہنماؤں نے پاکستان حاصل کرنے کے لیے انتھک محنت کی اور یوں ایک تحریک چلائی گئی اور بہت سے لوگوں نے اس میں شمولیت اختیار کی۔

میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر

لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا

براعظم ہند کے مسلمان خواب غفلت کی نیند سو رہے تھے

علامہ اقبال نے اپنی شاعری کے ذریعہ انہیں بیدار کیااور ان میں آزادی کی امنگ پیدا کی۔ مسلمانوں نے علامہ اقبال اور قائداعظم کی اس تحریک میں ساتھ دیا اور بہت سے مسلمانوں نے اس نے اپنی جانوں کی قربانیاں دیں۔ کئیں ماؤں نے اپنے لخت جگر شہید ہوتے دیکھے کتنے قافلے لوٹے گئے کس کس طرح اور کہاں کہاں مسلمانوں کو ستایا گیا مسلمانوں میں الگ وطن حاصل کرنے کا جذبہ بڑھتا گیا۔ اس میں بھی علامہ محمد اقبال مسلمانوں کو یہی کہتے رہے کہ

اپنی دنیا آپ آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے

سر آدم ہے، ضمیر کن فکاں ہے زندگی

علامہ اقبال نے مسلمانوں کے لئے علیحدہ وطن کا خواب دیکھا اور قائد اعظم اور مسلمانوں کی محنت اور لگن کا نتیجہ تھا کہ آج ہم ایک علیحدہ وطن میں زندگی بسر کر رہے ہیں

تھے تو وہ آباء تمہارے ہی پر تم کیا ہو۔

ہاتھ پہ ہاتھ دھرے منتظر فردا ہو

علامہ اقبال نے اس لگ وطن کا خواب جس مقصد کے تحت دیکھا وہ مقصد آج اگر ہم دیکھیں تو کیا وہ مقصد نظر آتا ہے ہمیں آج اگر اقبال کے خواب کا خیال اپنے الگ وطن حاصل کرنے کا ذہن میں آتا ہے تو بس یہی بات ذہن میں آتی ہے کہ اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں، واقعی اگر ہم غور کریں تو کیا واقعی یہ وہ ملک ہے جس کا خواب علامہ اقبال نے دیکھا تھا اگر ہم سوچیں اور غور کریں تو پتہ چلے کہ ہرگز نہیں یہاں تو ہم آزاد ہوتے ہوئے بھی غلام ہیں ہر وہ تقلید جو اسلام کے مطابق ہو وہ مناسب نہیں لگتی ہم اس کا نام لے لیتے ہیں ایسے میں جو تھوڑا بہت اسلام کی طرف رجحان رکھنے والے ہوتے ہیں اس سے بھی جاتے ہیں آج ہم کس کس کے غلام نہیں غیر مسلم روایات کے غلام اداکاروں کے غلام IMFکے غلام غلام در غلام ہوتے جا رہے ہیں ایسے میں پھر حکیم الامت شاعرمشرق علامہ محمد اقبال یاد آتے ہیں کہ اکثر وہ اپنی شاعری میں خودی کا ذکر کیا کرتے تھے کہ

خودی کو کر بلند اتنا کے ہر تقدیر سے پہلے

خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے

لیکن افسوس آج جیسے چاہو جیو کی آڑ میں ہم زنجیروں سے بندھتے جا رہے ہیں اور اس جیسے چاہو جیو نے ہماری اخلاقی اقدار کو بہت متاثر کیا ہے۔

اے کاش! کہ آج کے نوجوان اس بات کو سمجھ جائیں کہ اسلام کے مطابق زندگی گزارنے میں ہی ہماری بھلائی ہے اس سے پہلے کہ پانی سر سے گزر جائے،

خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کر دے

کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں۔