منزل کا نشاں

اُمتِ مسلمہ

جو تھی کبھی

ایک جسم و جاں

مگر آج

کر دیا گیا اسے

ٹکڑے ٹکڑے

سر کہیں ہے

اور دھڑ کہیں

ہاتھ کہیں ہیں

اور پیر کہیں

ہر حصہ ہے

ٹکڑوں میں بٹا

اگر ایک حصہ

درد میں ہے

تو دوسرا، بے خبر

ایک بے حال ہے

تو دوسرا

بے حس و بے پرواہ

ہر حصہ چاہے

اپنی الگ پہچان

آزادی و خودمختاری

کامیابی و سربلندی

اے اُمتِ مسلمہ

سوچو تو ذرا

رہ کر یوں

الگ الگ، جدا جدا

پا لو گے کیا۔

منزل کا نشاں؟