ٹرانس جینڈر ایک فتنہ

ٹرانس جینڈر کا قانون ابھی ہمارا Hot topic بنا ہوا ہے۔ جس میں سادہ لوح افراد کو گمراہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ یہ قانون دراصل خواجہ سراؤں کے حقوق کو تحفظ دینے کے لیے بنایا جا رہا ہے۔ ہم سب کو معلوم ہے کہ خواجہ سرا واقعی ہمارا ایک مظلوم طبقہ ہے جس کے حقوق کو تحفظ دینے میں کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ ان کی آڑ میں کسی اور مقصد کو فروغ دینے کے لیے یہ قانون منظور کروایا جا رہا ہے۔ پہلے تو ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ خواجہ سرا اور ٹرانس جینڈر میں فرق کیا ہے۔ اللہ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے اور ان کی جنس مقرر کی ہے جو کہ مرد اور عورت ہیں لیکن جس طرح کچھ لوگ پیدائشی معذور ہیں یعنی کسی کا پیدائشی ہاتھ نہیں کسی کا پاؤں نہیں کسی کی آنکھ نہیں بلکل اسی طرح sex organ کے بغیر جو لوگ پیدا ہوتے ہیں انہیں عرف عام میں خنثیٰ، ہیجڑا یا خواجہ سرا کہتے ہیں۔ جبکہ ٹرانس جینڈر کا مطلب ایک مکمل مرد یا ایک مکمل عورت ( جو پیدائش کے وقت کسی بھی طرح کی جنسی معذوری سے مبرا ہو) مگر وہ آپنی اس جنس سے مطمئن نہیں ہے یعنی اگر مرد ہے تو اس کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ عورت بن جائے اور عورت ہے تو اس کی خواہش ہے کہ وہ مرد بن جائے لہٰذا وہ نادرا میں جا کے اپنا شناختی کارڈ اس لحاظ سے بنوا لیں گے ان سے کوئی سوال نہ ہوگا کیونکہ قانون اس بات کی اجازت دے رہا ہے۔

اب ہم بات کرتے ہیں کہ اگر یہ قانون لاگو ہو جائے تو معاشرے پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ جب ایک شخص اپنے آپ کو مرد سے عورت میں ٹرانسفر کرے گا تو اس کو عورتوں کے تمام حقوقِ حاصل ہو جائیں گے وہ عورتوں کی محفلوں میں شریک ہوگا، بازاروں میں، سوئمنگ پولز میں، واش رومز میں غرض ہر اس جگہ جا سکے گا جو صرف خواتین کے لیے مخصوص ہوتی ہیں۔ وہ نکاح بھی کسی مرد سے کرے گا اب حقیقت میں تو وہ مرد ہے لہٰذا جنسی تسکین کیلئے وہ لازمی “قوم لوط” کا عمل کرے گا۔ اسی طرح جب ایک خاتون مرد بنے گی تو اس کو مردوں کے تمام حقوق حاصل ہوں گے وہ ترکہ میں بھی بھائیوں کی برابری کرے گی لیکن وہ شادی کسی عورت سے کرے گی کیونکہ وہ اپنے آپ کو مرد سمجھتی ہے اس طرح یہ لوگ نظریہ LGBT کو فروغ دیں گے جس کے تحت مرد، مرد کے ساتھ اور عورت، عورت کے ساتھ جنسی تسکین حاصل کرتے ہیں اور ہم سب کو معلوم ہے کہ قوم لوط پر عذاب اسی وجہ سے آیا تھا کہ انہوں نے اللہ کے قانون کے خلاف بغاوت کی تھی۔

اگر ہم بھی اللہ کے غضب کو دعوت دیں گے اور اس قانون کے خلاف نہیں بولیں گے تو پھر وہ دن دور نہیں کہ ہم پر بھی پتھروں کی بارش ہو گی (الامان الحفیظ). یہ بات بھی سوچنے کی ہے کہ یہ لوگ اپنی خواہشات تو پوری کر لیں گے مگر اولاد کہاں سے پیدا کریں گے اس کے لیے یہ یا تو حرام ذرائع استعمال کریں گے یا بچوں کو اغوا کریں گے اس سے معاشرے میں کس قدر بےحیائی، انتشار اور بے چینی پھیلے گی آس کا اندازہ لگانا بھی اذیت ناک ہے۔

میری رائے میں تو یہ سراسر نفسیاتی مسئلہ ہے ذہنی الجھنیں ہیں ایسے مرد اور خواتین جن کو اس طرح کےIssue ہوں انہیں علاج کی ضرورت ہے نا کہ قوانین فطرت کو تبدیل کرنے کی۔

یاد رکھیں اللہ اپنے قانون میں بگاڑ کرنے کی اجازت ہرگز نہیں دیتا بلکہ ان قوموں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیتا ہے جو آسکے احکام کی صریحاً خلاف ورزی کرتے ہیں اب بھی وقت ہےہم متحد ہو کر اس قانون کے خلاف آواز بلند کریں اور کسی بھی صورت اسے منظور نہ ہونے دیں تاکہ روز قیامت آپنے رب کے حضور سرخرو تو ہو سکیں اور ہمارا شمار بھی اللہ ان لوگوں کے ساتھ کرے جنہیں حضرت لوط علیہ السلام کے ساتھ بچا لیا گیا تھا۔

نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کامفہوم ہےکہ “قیامت کی نشانیاں تسبیح کے دانوں کی طرح ہیں” جب تسبیح ٹوٹتی ہے تودانے ایک ایک کر کے گرنا شروع ہو جاتے ہیں اسی طرح جب قیامت قریب ہوگی تو فتنے ظہور پذیر ہونا شروع ہوں گے اللہ تعالیٰ ہمیں اور ہماری آنے والی نسلوں کو ہر قسم کے فتنے سے محفوظ رکھے (امین)۔